مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ شکار کا بیان ۔ حدیث 41

جن جانوروں کا کھانا حلال ہے اور جن جانوروں کا کھانا حرام ہے ان کا بیان

راوی:

واضح رہے کہ جس چیز کا حرام ہونا کتاب اللہ ( یعنی قرآن مجید ) سے ثابت ہے وہ اول تو میتہ یعنی مردار ہے ۔ دوم دم مسفوح یعنی بہتا ہوا خون ہے ، سوم سؤر کا گوشت ہے اور چہارم اس جانور کا گوشت ہے جس کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو چنانچہ اس آیت کریمہ سے یہی ثابت ہے ۔
ا یت (قُلْ لَّا اَجِدُ فِيْ مَا اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُه اِلَّا اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّه رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِه ) 6۔ الانعام : 145)
" ( اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دیجئے کہ جو احکام ( بذریعہ وحی ) میرے پاس آئے ہیں ان میں تو میں کوئی حرام غذا پاتا نہیں کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ( مرا ہوا جانور ) ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو ( جانور ) شرک کا ذریعہ ہو کہ غیر اللہ کے نامزد کر دیا گیا ہو ۔ "
اس کے بعد سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حرام چیزوں میں کچھ اور جانوروں کا اضافہ کیا جیسے ذی ناب ، ذی مخلب اور گھر کے پلے ہوئے گدھے وغیرہ ۔ چنانچہ جن جانوروں کا احادیث نبوی کے ذریعہ حرام قرار پانا ثابت ہے ان میں سے بعض جانور تو بسبب قطعیت احادیث کے متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک حرام ہیں اور بعض جانوروں کے بارے میں ائمہ حضرات کے اختلافی مسلک ہیں کیونکہ ان کے سلسلے میں احادیث بھی مختلف منقول ہیں بعض جانوروں کے سلسلے میں اس آیت کریمہ کی بناء پر بھی علماء کے درمیان اختلاف پیدا ہوا ہے ۔
ا یت ( وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَ بٰ ى ِثَ ) 7۔ الاعراف : 157)۔
" اور وہ ( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال بناتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں ۔ "
چنانچہ حنفی علماء نے اسی آیت کی بنیاد پر مچھلی کے علاوہ پانی کے اور تمام جانوروں کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ ان حضرات کے نزدیک مچھلی کے علاوہ پانی کا اور جو بھی جانور ہے وہ خبیث یعنی گندا ہے ۔ بایں دلیل کہ " خبیث " سے مراد وہ چیز ہے جس کو طبیعت سلیم ، طیب کی ضد یعنی گندی اور گھناؤ نی جانے اور پانی میں مچھلی کے علاوہ جو بھی جاندار چیز ہوتی ہے اس کو طبیعت سلیم گھناؤ نی جانتی ہے؟
ہدایہ میں لکھا ہے کہ حضرت امام مالک اور علماء کی ایک جماعت کا مسلک یہ ہے کہ پانی کے تمام جانور مطلق حلال ہیں لیکن ان میں سے بعض علماء نے دریائی سور ، دریائی کتے اور دریائی انسان کا استثناء کیا ہے ۔ حضرت امام شافعی کے نزدیک مطلق دریا کے جانور حلال ہیں ۔
ان کی دلیل یہ آیت کریمہ ہے :
(اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُه ) 5۔ المائدہ : 96)۔
" تمہارے نزدیک دریا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے ۔"
نیز وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی استدلال کرتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریا کے بارے میں فرمایا ہے کہ
ہو الطھور ماؤہ والحل میتتہ ۔
" اس ( دریا ) کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار حلال ہے ۔ "

یہ حدیث شیئر کریں