بلا ضرورت کتا پالنا ، اپنے ذخیرہ ثواب میں کمی کرنا ہے
راوی:
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من اتخذ كلبا إلا كلب ماشية أو صيد أو زرع انتقص من أجره كل يوم قيراط "
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مویشیوں کی حفاظت کرنے والے شکار پکڑنے والے اور کھیت کھلیان کی چوکسی کرنے والے کتے کے علاوہ کوئی کتا پا لتا ہے تو اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط کے برابر کمی کر دی جاتی ہے ۔ " ( بخاری و مسلم )
تشریح
مضمون و مفہوم کے اعتبار سے یہ حدیث بھی پہلی حدیث کی طرح ہے ، البتہ اس حدیث میں اس کتے کے استثناء کو بھی ذکر کیا گیا ہے جو کھیت کھلیان کی حفاظت کرنے کے لئے پالا جاتا ہے ، نیز اس حدیث میں " ایک قیراط " کا ذکر ہے جب کہ پہلی حدیث میں دو قیراط کا ذکر کیا گیا ہے ، چنانچہ یہ فرق کتوں کی مختلف اقسام کی بنیاد پر ہے کہ بلا ضرورت پالے جانے والے کتوں میں بعض کتے ایسے ہوتے ہیں جو لوگوں کو کم ایذاء پہنچاتے ہیں ، ان کو پالنے کی صورت میں ایک قیراط کے برابر کمی کی جاتی ہے یا یہ فرق " مقام و جگہ " کے اعتبار سے ہے کہ بعض جگہ تو بلا ضرورت کتے پالنے کی وجہ سے ثواب میں دو قیرط کے برابر کمی کی جاتی ہے ۔ جیسے مکہ اور مدینہ کہ دونوں مقدس شہر اپنی عظمت و بزرگی کے لحاظ سے ایسے ہیں کہ اگر ان کی حدود میں رہنے والا کوئی شخص بلا ضرورت کتا پالتا ہے تو وہ زیادہ گنہگار ہوتا ہے اس لئے اس کے ذخیرہ ثواب میں روزانہ دو قیراط کے برابر کمی ہو جاتی ہے جب کہ ان دونوں مقدس شہروں کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں کتا پالنے والا نسبتا کم گنتہگار ہوتا ہے ، اس لئے اس کے ثواب میں دو قیراط کے برابر کمی ہوتی ہے اور جو لوگ جنگل و بیابان میں کتا پالتے ہیں ان کے ثواب میں ایک قیراط کی کمی ہوتی ہے کیونکہ آبادی میں کتے پالنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایذاء پہنچانے کا ذریعہ پیدا ہو جب کہ جنگل و بیابان میں یہ صورت نہیں ہوتی ۔
اور یا یہ فرق اختلاف زمانہ کے سبب سے ہے کہ پہلے تو ایک ہی قیراط کے برابر کم ہونے کے ساتھ تنبیہ کی گئی تھی ، مگر جب بعد میں لوگوں نے کتوں کو زیادہ پالنا شروع کر دیا اور ان کے ساتھ رہن سہن اختیار کیا ، نیز ان کی طرف زیادہ رغبت و شوق رکھنے لگے تو شریعت کی طرف سے زجر و تنبیہ میں بھی زیادتی اور شدت اختیار کی گئی اور ثواب میں روازانہ دو قیراط کے برابر کمی ہو جانے کی وعید بیان فرمائی گئی ۔