زندہ جانور کے جسم سے کاٹا گیا کوئی بھی حصہ مردار ہے
راوی:
عن أبي وافد الليثي قال : قدم النبي صلى الله عليه و سلم المدينة وهم يجبون أسنمة الإبل ويقطعون أليات الغنم فقال : " ما يقطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة لا تؤكل " . رواه الترمذي وأبو داود
" اور حضرت ابوواقد لیثی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( مکہ سے ہجرت فرما کر ) مدینہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ کے لوگ ( ایسا کرتے تھے کہ ) اونٹ کے کوہان اور دنبوں کی چکتیاں کاٹ لیا کرتے تھے ( اور پھر اس کو کھاتے تھے ) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چیز بھی کہ ایسے جانور کے جسم سے کاٹی جائے جو زندہ ہو تو وہ ( کاٹی گئی چیز ) مردار ہے ، اس کو نہ کھایا جائے ۔ " ( ترمذی ، ابوداؤد )
تشریح
زمانہ اسلام سے قبل چونکہ جاہلیت نے انسانی عقل و طبائع کو ماؤ ف کر رکھا تھا اس لئے اس وقت کے انسان ایسے ایسے طور طریقوں میں مبتلا تھے جن سے انسانیت بھی پناہ مانگتی تھی ، انھی طور طریقوں میں ایک رواج مدینہ والوں میں یہ بھی جاری تھا کہ وہ جب چاہتے اپنے زندہ اونٹوں کے کوہان ، زندہ دنبوں کی چکتیاں کاٹ لتیے تھے اور ان کو بھون پکا کر کھا لیتے تھے ۔ یہ جانوروں کے تیئں ایک انتہائی بے رحمانہ طریقہ ہی نہیں تھا بلکہ طبع سلیم کے منافی بھی تھا ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو اس مذموم فعل سے باز رکھا اور ان پر واضح کیا کہ زندہ جانور کے جسم سے جو بھی عضو کاٹا جائے گا وہ مردار ہو گا ، اور اس کا کھانا حرام ہو گا ۔