مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ شکار کا بیان ۔ حدیث 31

بلا وجہ کسی جانور وپرندہ کو مار دینا ناجائز ہے

راوی:

وعن عبد الله بن عمرو بن العاص أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " من قتل عصفورا فما فوقها بغير حقها سأله الله عن قتله " قيل : يا رسول الله وما حقها ؟ قال : " أن يذبحها فيأكلها ولا يقطع رأسها فيرمي بها " . رواه أحمد والنسائي والدرامي

" اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " اگر کوئی شخص کسی چڑیا یا اس سے چھوٹے بڑے کسی اور جانور و پرندہ کو ناحق مار ڈالے گا تو اللہ تعالیٰ اس شخص سے اس ( ناحق مارنے ) کے بارے میں باز پرس کرے گا ۔ " عرض کیا گیا " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس ( چڑیا وغیرہ ) کا حق کیا ہے ؟ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " یہ کہ اس کو ذبح کیا جائے ( کسی اور طرح اس کی جان نہ ماری جائے ) اور پھر اس کو کھایا جائے ، یہ نہیں کہ اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا جائے ۔ " ( احمد ، النسائی ، دارمی )

تشریح
اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ کی اس وسیع کائنات میں ہر جاندار اپنی جان کی حفاظت کا حق رکھتا ہے خواہ وہ اشرف المخلوقات انسان ہو یا حیوان ، جس طرح کسی انسان کی جان کو ناحق مارنا شریعت کی نظر میں بہت بڑا گناہ اور بہت بڑا ظلم ہے ، اسی طرح کسی حیوان کی جان ناحق ختم کرنا بھی ایک انتہائی غیر مناسب فعل اور ایک انتہائی بے رحمی کی بات ہے ۔
اگر قادر مطلق نے انسان کو طاقت و قوت عطا کر کے حیوانات پر تسلط و اختیار عطا کیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اپنی اس طاقت اور اپنے اس اختیار کے بل پر محض اپنا شوق پورا کرنے کے لئے یا محض تفریح طبع کی خاطر بے زبان جانوروں کو اپنا تختہ مشق بنائے ۔ اور ان کی جانوں کو کھلونا بنا کر ان کو ناحق مارتا رہے ۔
جس جانور کے گوشت کو حق تعالیٰ نے انسان کے لئے حلال قرار دیا ہے اگر وہ اس جانور کو بطور شکار مار کر یا اس کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتا ہے اور اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے اختیار کا جائز استعمال کرتا ہے اور اگر محض لہو و لعب اور تفریح طبع کے لئے اس جانور کی جان ناحق یعنی بلا فائدہ ختم کرتا ہے اور اس کے گوشت وغیرہ سے کوئی نفع حاصل کئے بغیر اس کو مار کر پھینک دیتا ہے تو اس طرح نہ صرف وہ اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کرتا ہے بلکہ ایک جاندار پر ظلم کرنے والے کے برابر ہوتا ہے اس لئے حدیث میں ایسے شخص کو آگاہ کیا گیا ہے کہ تمہارا یہ فعل ( یعنی جانوروں اور پرندوں کو ناحق مارنا ) بارگاہ احکم الحاکمین میں قابل مواخذہ ہے ۔ اور کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تم سے اس بارے میں سخت باز پرس کرے گا اور تمہیں عتاب و عذاب میں مبتلا کرے گا ۔
طیبی کہتے ہیں کہ کسی جانور کا حق ، اس سے منتفع ہونے سے عبارت ہے ، جس طرح کہ بلا مقصد اس کا سر کاٹ کر پھینک دینا ، اس کا حق ضائع کرنے سے عبارت ہے ، لہٰذا کہا جائے گا کہ حدیث کے یہ الفاظ ولا یقطع رسھا فیرمی بھا ما سبق کی عبارت کی گویا تاکید و توثیق کے طور پر ہے

یہ حدیث شیئر کریں