ایک یہودی کی شقاوت کا ذکر
راوی:
وعن عائشة قالت : كان على النبي صلى الله عليه وسلم ثوبان قطريان غليظان وكان إذا قعد فرق ثقلا عليه فقدم بز من الشام لفلان اليهودي . فقلت : لو بعثت إليه فاشتريت منه ثوبين إلى الميسرة فأرسل إليه فقال : قد علمت ما تريد إنما تريد أن تذهب بمالي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " كذب قد علم أني من أتقاهم وآداهم للأمانة " . رواه الترمذي والنسائي
اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر جو دو کپڑے تھے وہ قطر کے تھے " اور بہت زیادہ موٹے تھے چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ دیر تک بیٹھتے اور پسینہ آتا تو وہ کپڑے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن پر بھاری ہو جاتے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف اٹھانی پڑتی آخر کار ایک دن جب کہ فلاں یہودی کے ہاں جس کا نام یہاں ذکر نہیں کیا گیا ہے شام سے کپڑا آیا ہوا تھا تو میں نے عرض کیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کو اس یہودی کے پاس بھیج دیتے جو اس سے بوعدہ فراغت یعنی اس وعدہ پر کہ جب کہیں سے کچھ آ جائے گا تو قیمت ادا کر دی جائے گی دو کپڑے خرید لیتا تو اچھا ہوتا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس تکلیف سے بچ جائیں جو ان کپڑوں کی وجہ سے اٹھانا پڑ رہی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اس مشورہ کو قبول فرما لیا اور کسی شخص کو مذکورہ وعدہ پر کپڑا خریدنے کے لئے اس یہودی کے پاس بھیج دیا اس شخص نے یہودی کے پاس پہنچ کر جب کپڑا مانگا تو اس نے کہا کہ تمہارا جو ارادہ ہے اس کو میں جانتا ہوں تم اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتے کہ اس وقت تو وعدہ پر میرا کپڑا لے جاؤ اور پھر قیمت ادا کرنے سے انکار کر دو بظاہر ان الفاظ کا مخاطب وہ شخص تھا، لیکن حقیقت میں اس کا خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا پھر اس شخص نے واپس آ کر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہودی کا قول نقل کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس یہودی نے جھوٹ بولا ہے، اور وہ خود بھی جانتا ہے کہ اس نے بالکل جھوٹ بات اپنی زبان سے نکالی ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ (تورات کے ذریعہ) یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میں تمام لوگوں سے زیادہ متقی و پرہیز گار ہوں اور ان سے زیادہ اچھی طرح امانت ادا کرنے والا ہوں ۔" (ترمذی ، نسائی )
تشریح
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موٹا کپڑا پہنا لیکن جب اس کپڑے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی راحت اور آسودگی کی خاطر دوسرے کپڑے قرض خریدنے کا ارادہ فرمایا اسی طرح اس حدیث سے اس یہودی کی شقاوت بھی ظاہر ہوئی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں کس قدر بغض و نفرت کا شکار تھا۔