ذبیحہ کے پیٹ کے بچہ کا حکم
راوی:
وعن جابر أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " ذكاة الجنين ذكاة أمه " . رواه أبو داود والدارمي
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ماں کا ذبح کرنا اس کے پیٹ کا بھی ذبح کرنا ہے ۔ " ( ابوداؤد ، دارمی ) ۔ ترمذی نے اس روایت کو حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے ۔ "
تشریح
حدیث کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ ماں کا ذبح ہونا اس کے پیٹ کے بچہ کے حلال ہونے کے لئے کافی ہے ، مثلا کسی شخص نے اونٹنی کو نحر کیا یا بکری کو ذبح کیا اور اس کے پیٹ سے مرا ہوا بچہ نکلا تو اس کو کھانا جائز ہے ، چنانچھ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہ مسلک ہے لیکن حضرت امام شافعی کے نزدیک تو اس بچہ کا کھانا ہر حال میں درست ہو گا ، خواہ اس کے جسم پر بال ہوں یا نہ ہوں اور حضرت امام مالک کے نزدیک اس بچہ کو کھانا اسی صورت میں جائز ہو گا جب کہ اس کی جسمانی ساخت مکمل ہو چکی ہو ، اور اس کے بدن پر بال نکل چکے ہوں ۔
ان تینوں ائمہ کے برخلاف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اس بچہ کو کھانا حلال نہیں ہے ہاں اگر وہ بچہ ماں کے پیٹ سے زندہ نکلے اور پھر اس کو ذبح کیا جائے تو اس صورت میں اس کو کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ حنفیہ میں سے امام زفر اور حضرت امام حسن ابن زیاد کا بھی یہی قول ہے ، ان حضرات کی طرف سے اپنے مسلک کی دلیل کے طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر شکار ( گولی یا تیر وغیرہ کھا کر ) پانی میں گر پڑے اور پھر اس میں سے مردہ نکلے تو اس کو کھانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ احتمال ہے کہ وہ شکار پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے مرا ہو ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جان نکلنے کے سبب میں شک واقع ہو جانے کی وجہ سے اس شکار کو کھانا حرام قرار دیا تو چونکہ وہی چیز یعنی جان نکلنے کے سبب میں شک کا واقع ہونا ، ذبیحہ کے پیٹ سے نکلنے والے مردہ بچہ کے بارے میں بھی موجود ہے اس لئے وہ بھی حرام ہو گا کیونکہ جس طرح پانی میں گر جائے اور شکار کی موت کا سبب معلوم نہیں ہو سکتا اسی طرح اس مردہ بچہ کی موت کا سبب بھی معلوم نہیں ہو سکتا کہ آیا وہ اپنی ماں کے ذبح کئے جانے کے سبب سے مرا ہے یا دم گھٹنے کی وجہ سے مر گیا ہے ۔
جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو حضرت امام اعظم کے نزدیک اس حدیث کے صحیح ہونے میں کلام کیا گیا ہے ۔