آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی سفیدی
راوی:
وعن أبي رمثة التيمي قال : أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وعليه ثوبان أخضران وله شعر قد علاه الشيب وشيبه أحمر . رواه الترمذي وفي رواية لأبي داود : وهو ذو وفرة وبها ردع من حناء
اور حضرت ابورمثہ تیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن پر دو سبز کپڑے تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دو کپڑے پہن رکھے تھے وہ یا تو خالص سبز رنگ کے تھے یا ان میں سبز رنگ کی دھاریاں تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور داڑھی کے تھوڑے ہی بالوں پر بڑھاپے (یعنی سفیدی ) کا غلبہ تھا، نیز آپ کا بڑھاپا سرخ تھا ۔ (ترمذی ،) اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفرہ والے تھے اور ان (بالوں ) میں مہندی کا رنگ تھا ۔"
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید بالوں کی مقدار کے بارے میں مختلف روایتیں منقول ہیں، چنانچہ ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور داڑھی کے سفید بالوں کو گنا تو وہ چودہ سے زیادہ نہیں تھے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑھاپے کا اثر تقریبا بیس سفید بالوں سے زیادہ نہیں تھا، اس طرح ایک روایت میں سترہ کی تعداد آئی ہے وفرہ اصل میں سر کے ان بالوں کو کہتے ہیں جو کانوں کی لو تک ہوں لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفرہ والے تھے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال کان کی لو تک تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑھاپا سرخ تھا کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو چند بال ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہدی کا خضاب کئے ہوئے تھے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ سرخ بڑھاپے سے مراد یہ ہے کہ وہ چند بال بھی بالکل سفید نہیں تھے بلکہ مائل بہ سرخی تھے جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جب بال سفید ہونے لگتے ہیں تو وہ پہلے بھورے ہوتے ہیں اور پھر سفید ہو جاتے ہیں ۔
جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خضاب کرنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں محدیثین اور فقہا کے درمیان اختلاف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب کیا ہے یا نہیں؟ چنانچہ اکثر محدیثیں یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب نہیں کیا ہے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑھاپا سفید بالوں کی اس حد تک پہنچا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خضاب کرنے کی کوئی ضرورت محسوس ہوتی جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو چند بال سفید تھے ان کی بھی صورت یہ تھی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر کو تیل لگاتے تو ان بالوں کی سفیدی ظاہر نہیں ہوتی تھی اور جب سر بغیر تیل کے ہوتا تو وہ سفید بال ظاہر رہتے ! اس کے برخلاف فقہاء اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خضاب لگاتے تھے اس کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ محدثین اس حدیث کے بارے میں جو اوپر نقل ہوئی ہے یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہی مفہوم ہوتا ہے کہ جو چند بال سفید تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف انہی پر خضاب کرتے تھے لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان بالوں پر بھی قصدا خضاب نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں کو دھونے اور ان کو صاف کرنے کے لئے کبھی کبھی سر میں مہندی ڈال لیا کرتے تھے اسی کی وجہ سے وہ سفید بال رنگین ہو جاتے تھے، ایک روایت میں جو یہ منقول ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو موئے مبارک تھا وہ (دیکھنے والوں کو ) ایسا نظر آتا تھا جیسے اس پر مہندی کا خضاب کیا گیا ہو تو اس کے بارے میں محدثین یہ کہتے ہیں کہ بیشک اس بال پر خضاب کا اثر تھا لیکن وہ خضاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا بلکہ اس کی حقیقت یہ تھی کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ ادب و تعظیم و تبرک کے طور پر اس بال کو خوشبوؤں میں ڈال کر رکھتے تھے اس لئے وہ ان خوشبوؤں کے رنگ کے اثر سے خضاب کے مشابہ نظر آتا تھا یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بال کی حفاظت و مضبوطی کے لئے اس پر خضاب کر دیا ہو اسی طرح بعض روایت میں جو یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سرخ خضاب کرتے تھے اور کبھی زرد تو اس کی حقیقیت بھی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ریش مبارک کو صفائی و ستھرائی کے لئے مہندی کے ساتھ دھوتے تھے اور کبھی زعفران کے ساتھ چنانچہ ریش مبارک کے بال جو بذات خود سیاہ تھے اس طرح دھوئے جانے کی وجہ سے رنگین ہو جاتے تھے ۔