مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ لباس کا بیان ۔ حدیث 274

پرانے کپڑے کو ضائع مت کرو

راوی:

وعن عائشة قالت قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : " يا عائشة إذا أردت اللحوق بي فليكفك من الدنيا كزاد الراكب وإياك ومجالسة الأغنياء ولا تستخلقي ثوبا حتى ترقعيه " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث صالح بن حسان قال محمد بن إسماعيل : صالح بن حسان منكر الحديث

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ۔" عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ! اگر تم ( دنیا و آخرت دونوں جگہ مجھ سے (کامل ) اتصال و وابستگی چاہتی ہو تو دنیا کی صرف اتنی ہی چیزوں پر اکتفا کرو جو سوار کے زاد راہ کے برابر ہو اور دولت مندوں کی ہم نشینی اختیار کرنے سے اجتناب کرو، نیز کپڑے کو اس وقت تک پرانا سمجھ کر نہ پھینکو جب تک کہ تم اس کو پیوند (لگا کر پہننے ) کے قابل سمجھو ۔" اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور یہ حدیث ہم تک صالح ابن حسان کی روایت کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے نہیں پہنچی ہے جب کہ محمد بن اسماعیل (یعنی امام بخاری ) نے کہا ہے صالح ابن حسان منکر الحدیث ہیں (یعنی ان کی روایت منکر ہے ) ۔"

تشریح
" جو سوار کے زاد راہ کے برابر ہو۔" اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی صرف اتنی ہی چیزوں پر قناعت کرے جو اس کی زندگی اور مقصد حیات کے لئے ضروری ہوں ۔ اس جملہ میں " سوار " کی تخصیص شاید اس لئے ہے کہ وہ اپنا راستہ تیز گامی سے طے کرتا ہے اور منزل پر جلد پہنچتا ہے جس کی وجہ سے اس کو تھوڑا سا بھی زاد راہ کافی ہو جاتا ہے اس کے برخلاف پیادہ کو چونکہ سفر میں دیر لگتی ہے اس لئے اس کو زاد راہ بھی زیادہ لینا پڑتا ہے ۔ ۔
دولت مندوں کی ہمنشینی سے پچھنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ دنیا دار دولت مندوں کی صحبت و مجالست دنیا اور دنیا کی لذات کے تئیں محبت وخواہشات میں زیادتی اور لہو و لعب میں مشغولیت کا باعث بنتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت (لاتمدن عینیک) الاّ یہ ایک روایت میں منقول ہے کہ ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ مردوں کی ہمنشینی سے اجتناب کرو عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں ( جن کو مردہ فرمایا جا رہا ہے اور جن کی ہمنشینی سے بچنے کی تلقین فرمائی جا رہی ہے أپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( دنیا دار ) دولت مند ۔"
" جب تک کہ تم اس کو پیوند کے قابل سمجھو ۔" کا مطلب یہ ہے کہ اگر کپڑا پرانا و بوسیدہ ہو جائے یا وہ پھٹ جائے تو اس سے بے اعتنائی نہ برتو اور اس کو ضائع نہ کرو بلکہ اس کو ٹھیک ٹھاک کر کے اور اس میں پیوند لگا کر کم سے کم ایک بار اور استعمال کر لو ۔ اس ارشاد کے ذریعہ گویا اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ اگر اپنے پاس پھٹے پرانے کپڑے ہوں تو (زہد و قناعت کا تقاضا یہ ہے کہ ستر پوشی کے لئے انہی پر اکتفا کیا جائے، چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی خلافت کے زمانہ میں (جب کہ ان کو دنیا کے ایک عظیم ترین حکمران کی حیثیت حاصل تھی ) ایک دن اسی حالت میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ انہوں نے جو تہبند باند ھ رکھا تھا اس میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔

یہ حدیث شیئر کریں