مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ شکار کا بیان ۔ حدیث 25

غیر مسلموں کے ہاں کا کھانا حلال ہے

راوی:

وعن قبيصة بن هلب عن أبيه قال : سألت النبي صلى الله عليه و سلم عن طعام النصارى وفي رواية : سأله رجل فقال : إن من الطعام طعاما أتحرج منه فقال : " لا يتخلجن في صدرك شيء ضارعت فيه النصرانية " . رواه الترمذي وأبو داود

" اور حضرت قبیصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ہلب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عیسائیوں کے کھانوں کے بارے میں دریافت کیا ( کہ ہم لوگ کھائیں یا نہیں ؟ ) اور ایک رویت میں یوں ہے کہ ( اس بارے میں ) ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا، چنانچہ اس نے عرض کیا کہ کھانوں میں سے ایک کھانا ( یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کا کھانا ) ایسا ہے جس سے میں پرہیز کرتا ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے دل میں کسی چیز یعنی شک و شبہ کی کھٹک نہ پیدا ہونی چاہئے ، تم نے اپنے اس عمل کے ذریعہ عیسائیت کی مشابہت اختیار کی ہے ۔ " ( ترمذی ابوداؤد )

تشریح
" تم نے اپنے اس عمل کے ذریعہ عیسائیت کی مشابہت اختیار کی " کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل پر یہ واضح کیا کہ تمہارا عیسائیوں کے تیار کئے ہوئے کھانے سے پرہیز کرنا ایک ایسا عمل ہے جس نے تمہیں عیسائیوں کے مشابہ کر دیا ہے کیونکہ یہ عیسائیوں ہی کا شیوہ ہے کہ انہوں نے کھانے پینے کے معاملہ میں اپنے اوپر بےجا پابندیاں عائد کر لی ہیں اور ان کے پادریوں نے دین میں سختی پیدا کر دی ہے چنانچہ اگر ان کے دل میں کسی بھی اچھے خاصے اور حلال کھانے کے بارے میں یہ کھٹک پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ حرام ہے یا مکروہ ہے تو وہ بلا سوچے سمجھے اس سے پرہیز کرنے لگتے ہیں ۔ لہٰذا تم بلا دلیل شک و شبہ میں پڑ کر ان کے کھانے سے پرہیز نہ کرو ، تم مسلمان ہو اور تمہارا دین نہایت سیدھا سادا اور آسان ہے اس میں سختی اور دشواری کا نام نہیں ہے ، تمہیں اپنے عمل سے اپنے دین کی نرمی اور آسانی کو ظاہر کرنا چاہئے ، اگر تم بلا تحقیق کسی کھانے کو حرام سمجھنے لگو گے تو یہ اپنے اوپر بے جا قسم کی پابندی عائد کرنے اور اپنے دین کو سخت ظاہر کرنے کے مرادف ہی نہیں ہوگا بلکہ عیسائیت کی مشابہت اختیار کرنے کے برابر بھی ہوگا ۔
بعض حضرات نے حدیث کے آخری جزو کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ " تمہارے دل میں کوئی خدشہ اس بات کا نہ گزرے کہ عیسائیوں کا کھانا کھانے سے تم ان کے مشابہ ہو گئے ۔ " اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ کسی کھانے کو محض اس لئے اپنے اوپر حرام نہ کر لو کہ وہ کسی غیر مسلم کا تیار کیا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے اس غیر مسلم کی مشابہت لازم آئے گی کیونکہ کھانے پینے کی چیزوں میں کسی قوم کی مشابہت ضرر نہیں کرتی بشرطیکہ تشبیہ کی نیت نہ ہو ۔
اس ارشاد گرامی میں " عیسائیت " کی تخصیص محض اس بنیاد پر ہے کہ سوال کرنے والے صحابی حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جو اسلام قبول کرنے سے پہلے عیسائیت کے پیرو تھے ۔
بہر حال ! حدیث سے یہ واضح ہوا کہ جب تک کسی کھانے کی حرمت کا یقین نہ ہو محض شک کی وجہ سے اس سے پرہیز کرنا یا اس کو کھانے میں تردد کرنا مناسب نہیں ہے ، غیر مسلم اقوام کی طرح اسلام میں کھانے پینے کا پرہیز نہیں ہے کہ ذرا کسی کا ہاتھ لگ گیا تو وہ کھانا چھوت ہو گیا، بلکہ مسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ ہر قوم کا پکا ہوا کھانا کھا سکتے ہیں ، بشرطیکہ یہ یقین نہ ہو کہ اس کھانے میں کوئی حرام چیز ملائی گئی ہے یا وہ نجس برتنوں میں پکایا گیا ہے ۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی غیر مسلم کوئی حرام چیز پکائے مثلا غیر مذبوحہ گوشت یا مردار یا سؤر اور یا کھانے میں شراب ملائے تو اس کو بھی کھا لیا جائے ۔

یہ حدیث شیئر کریں