لباس میں ضرورت سے زائد کپڑا صرف کرنا ممنوع ہے
راوی:
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " ما أسفل من الكعبين من الإزار في النار " . رواه البخاري
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" از قسم ازار (یعنی پائجامہ وغیرہ ) کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا ۔ (بخاری )
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ٹخنوں سے نیچے پیر کے جتنے حصہ پر تہبند وغیرہ لٹکا ہوا ہو گا وہ پورا حصہ دوزخ میں ڈالا جائے گا ۔ بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ عمل یعنی ٹخنے سے نیچے تہبند وغیرہ لٹکانا) ایک مذموم عمل ہے اور دوزخیوں کا کام ہے ٹخنے سے نیچے ازار وغیرہ لٹکانے کے مسئلہ میں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ اس سلسے میں جو احادیث منقول ہیں ان میں زیادہ تر ازار کے لٹکانے کا ذکر ہے اور ازر لٹکانے والے کے حق میں بہت سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہے یہاں تک کہ ایک روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ایک شخص کو اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا کہ اس کے پائچے ٹخنوں سے نیچے تھے تو أپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دوبارہ وضو کرنے اور نماز لوٹانے کا حکم دیا اسی طرح ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ شعبان کی پندرھویں شب میں سب ( مسلمانوں ) کی بخشش کی جاتی ہے علاوہ عاق، مدمن خمر، اور مسبل ازار کے کہ ان لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ساری وعیدوں اور ممانعت کا تعلق محض ازار ہی سے نہیں ہے بلکہ سب کپڑوں سے ہے یعنی بدن پر جو بھی کپڑا ضرورت سے زائد اور سنت کے دائرے سے باہر ہو گا اس پر مذکورہ ممانعت کا حکم عائد ہو گا جہاں تک ازار کی تخصیص کا تعلق ہے تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اس زمانہ میں چادر اور ازار عام طور پر لباس ہوتا تھا اس لئے اس کے استعمال کی کثرت کی بنا پر اس کا ذکر کیا گیا ویسے بعض روایتوں میں ازار کے ساتھ دوسرے کپڑوں جیسے قمیص اور پگڑی کا بھی وضاحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے چنانچہ آگے دوسری فصل میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت نقل ہو گی کہ الا سبال فی الا زار والقمیص والعمامۃ من جر منھا شیأ خیلا الخ اسی طرح اسی فصل میں ابھی اوپر حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی جو روایت گزری ہے اس میں مطلق کپڑے کا ذکر ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ لباس میں ضرورت سے زائد کپڑا رکھنے کی ممانعت کا تعلق ہر کپڑے سے ہے
بہر حال عزیمت یعنی اولی درجہ یہ ہے کہ ازار یعنی تہبند وپائجامہ کو نصف پنڈلی تک رکھا جائے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند نصف پنڈلی ہی تک رکھتے تھے البتہ رخصت یعنی اجازت وا سانی کا درجہ ٹخنوں تک ہے کہ تہبند و پائجامے کو زیادہ سے زیادہ ٹخنوں تک رکھا جا سکتا ہے کرتے و قمیص اور عباد شیروانی وغیرہ کے دامن کا بھی یہی حکم ہے اسی طرح قمیص و کرتے وغیرہ کی آستینوں کی مسنون لمبائی یہ ہے کہ وہ بندوست یعنی ہاتھ کے جوڑ تک ہوں عمامہ کا شملہ زیادہ سے زیادہ اتنا چھوڑاجانا چاہئے جو نصف پشت تک رہے جو شملہ لمبائی یا چوڑائی میں اس سے زائدہو گا وہ بدعت اور اس زائد لٹکانے میں شمار ہوگا جو ممنوع ہے چنانچہ بعض علاقوں اور شہروں کے لوگ اپنے لباس میں جو زائد از ضرورت کپڑا استعمال کرتے ہیں جیسے ضرورت سے زائد لمبی لمبی آستینوں اور وسیع و عریض دامنوں والے کرتے کئی کئی گز کے پاجامے اور شلواروں اور بڑے بڑے عمامے اور پگڑ کا رواج بعض جگہ پایا جاتا ہے وہ خلاف سنت ہے بلکہ یہ زائد از ضرورت کپڑے صرف کرنا اگر تکبر و غرور کی نیت سے ہو گا تو اس کو حرام کہیں گے اور اگر لوگوں کی دیکھا دیکھی یا کسی رواج کے تحت ہو گا تو اس کو مکروہ کہا جائے گا کپڑوں میں ضرورت سے زائد لمبائی چوڑائی رکھنا عورتوں کے لئے بھی ممنوع ہے لیکن مردوں کی بہ نسبت ایک بالشت کے بقدر زائد ہونا جائز ہے بلکہ اتنی زائد مقدار تو مستحب ہے جو پردہ پوشی کے بقدر ہو جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت سے معلوم ہو گا جو دوسری فصل میں نقل ہو گی