آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تکیہ
راوی:
وعنها قالت : كان وساد رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي يتكئ عليه من أدم حشوه ليف . رواه مسلم
اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تکیہ، کہ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ فرماتے تھے چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ۔" (مسلم )
تشریح
تکیہ کرتے تھے " یعنی اس پر ٹیک لگا کر بیٹھتے تھے یا سوتے وقت اس کو سر کے نیچے رکھتے تھے، ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ سونے کے لئے اور آرام کی خاطر، بچھونا اور تکیہ بنانا مستحب ہے، بشرطیکہ عیش و عشرت اور آسودگئی نفس میں انہماک اور اسراف کے طور پر نہ ہو، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ کو پسند کرتے تھے اور سوتے وقت اس کو سر کے نیچے رکھتے تھے اور اس پر ٹیک لگا کر بیٹھتے بھی تھے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اگر کوئی شخص تکیہ اور خوشبو دے تو اس کو قبول کرنے سے انکار نہ کرنا چاہئے ۔
یہ اور ان جیسی دوسری روایتوں سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی زندگی میں زہد و استغناء اختیار کئے ہوئے تھے اور دنیا کی متاع اور لذتوں سے اعراض کرتے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس بھی موٹے جھوٹے اور پھٹے پرانے کپڑوں پر مشتمل ہوتا تھا ، منقول ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا بھی لباس میسر آ جاتا اس کو پہن لیتے اس میں کسی تکلف و اہتمام کے روادار نہیں ہوتے تھے، البتہ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی نفیس و عمدہ کپڑا آ گیا، تو بیان جواز کے لئے اس کو بھی زیب تن فرما لیا لیکن پھر فوراً ہی وہ کپڑا کسی دوسرے شخص کو غنایت فرما دیا، لہٰذا عمدہ و نفیس ہی کپڑے پہننے کی قید اپنے اوپر عائد کر لینا، یا عمدہ و نفیس کپڑا پہننے کی عادت اختیار کر لینا اور اس سلسلے میں بیجا تکلف و اہتمام کرنا سنت کے خلاف ہے اگرچہ اصل کے اعتبار سے مباح ہے، لیکن یہ بھی واضح رہے کہ اگر کوئی اچھے کپڑے پہننے کی استطاعت و حیثیت کے باوجود محض بخل اور خست کی بنا پر موٹے جھوٹے اور پھٹے پرانے کپڑے پہننے، یا لوگوں پر اپنے زہد و تقویٰ کا سکہ جمانے کے لئے اور یا حرص و طمع کے تحت لوگوں سے مانگنے کے لئے ریاکاری کے طور پر معمولی قسم کے خستہ و بوسیدہ کپڑے پہنے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی بلکہ بعض ارباب خیر و مشیخت کے بارے میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے اپنی پرہیز گاری اور اپنے بلند مقام روحانیت کو چشم اغیار سے چھپانے کے لئے، یا تحدیث نعمت کے طور پر اپنی خوشحالی کو ظاہر کرنے کے لئے عمدہ اور نفیس کپڑے پہنے ۔ حاصل یہ کہ اگر اللہ نے کسی کو خوشحالی کی نعمت عطا کی ہے، اور وہ مالی طور پر اچھی حیثیت و استطاعت رکھتا ہے تو اس کو اعلی و نفیس کپڑے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں، بشرطیکہ وہ اسراف و تکبر کی حد کو نہ پہنچے کیونکہ میانہ روی ہر جگہ اور ہر عمل میں محمود و مطلوب ہے ۔