مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ پینے کی چیزوں کا بیان ۔ حدیث 208

دائیں طرف سے دینا شروع کرو

راوی:

وعن أنس قال : حلبت لرسول الله صلى الله عليه وسلم شاة داجن وشيب لبنها بماء من البئر التي في دار أنس فأعطي رسول الله صلى الله عليه وسلم القدح فشرب وعلى يساره أبو بكر وعن يمينه أعرابي فقال عمر : أعط أبا بكر يا رسول الله فأعطى الأعرابي الذي عن يمينه ثم قال : " الأيمن فالأيمن وفي رواية : " الأيمنون الأيمنون ألا فيمنوا "

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (جب ہمارے گھر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لئے گھر کی پلی ہوئی ایک بکری کا دودھ دوہا گیا اور اس دودھ کو اس کنویں کے پانی میں ملایا گیا جو انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں تھا، پھر یہ دودھ کا پیالہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دودھ پیا ۔ (اس وقت ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے تھے، اور دائیں طرف ایک دیہاتی بیٹھا تھا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! یہ بچا ہوا دودھ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیجئے " لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کو عنایت فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف بیٹھا تھا پھر فرمایا کہ " دایاں مقدم ہے اور پھر دایاں ۔" اور ایک روایت میں یہ ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ فرمایا کہ ) یاد رکھو! دائیں طرف کے زیادہ حق دار ہیں دائیں طرف کے زیادہ حق دار ہیں لہٰذا دائیں طرف والوں کو دیا کرو یعنی جب یہ معلوم ہو گیا کہ دائیں طرف والے زیادہ حق دار ہیں تو تم بھی دائیں طرف والوں کی رعایت ملحوظ رکھا کرو کہ دینے میں انہی سے ابتداء کرو۔" (بخاری ومسلم )

تشریح
جو انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں تھا " ظاہری اسلوب کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں یہ کہتے کہ " جو ہمارے گھر میں تھا " کیوں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے وہ انہی کے گھر کا ہے، جس بکری کا دودھ دوہا گیا تھا وہ بھی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں تھی اور وہ کنواں بھی ان ہی کے گھر میں تھا اور خود حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی اس واقعہ کو بیان کرنے والے ہیں، لیکن انہوں نے ظاہری اسلوب کے تقاضے کے برخلاف یہ کہہ کر کہ " جو انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں تھا " گویا تفنن عبارت کے اسلوب کو اختیار کیا جس کو علم عربیت میں وضع مظہر موضع مضمر " کہتے ہیں ۔
دونوں لفظ ایمن نون کے پیش کے ساتھ ہیں جن کا ترجمہ یہی ہے کہ " دایاں مقدم ہے اور پھر دایاں " یعنی سب سے پہلے اس شخص کو دیا جائے جو داہنی طرف ہو اور پھر اس شخص کو دیا جائے جو پہلے شخص کے برابر میں اسی طرف ہو، اسی ترتیب سے دیتا چلا جائے، یہاں تک کہ سب سے آخر میں اس شخص کا نمبر آئے جو بائیں طرف ہے ۔ ایک روایت میں یہ دونوں لفظ ایمن نون کے زبر کے ساتھ ہیں اس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ میں دائیں طرف والے کو دوں گا پھر دائیں طرف والے کو، لیکن نون کے پیش روایت کی تائید مذکورہ بالا دوسری روایت الا یمنون الا یمنون سے بھی ہوتی ہے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کے دینے میں اپنی داہنی طرف کی رعایت ملحوظ رکھنا مستحب ہے یعنی اگرچہ داہنی طرف کا شخص بائیں طرف کے شخص کی بہ نسبت کم رتبہ بھی ہو تو تب بھی پہلے اسی کو دیا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اسی لئے مقدم رکھا کہ وہ دائیں طرف تھا ، نیز یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال عدل و انصاف اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصف حق شناسی پر بھی دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے افضل اور مقرب ترین ہونے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سفارش کے باوجود دیہاتی کے حق کو نظر انداز نہیں کیا جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عرض کرنے کا تعلق ہے تو انہوں نے محض یاد دہانی کے لئے عرض کیا تھا کہ شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی یاد نہ رہی ہو ۔

یہ حدیث شیئر کریں