مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ پینے کی چیزوں کا بیان ۔ حدیث 205

جانوروں کی طرح منہ ڈال کر پانی پینا مکروہ ہے

راوی:

وعن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل على رجل من الأنصار ومعه صاحب له فسلم فرد الرجل وهو يحول الماء في حائط فقال النبي صلى الله عليه وسلم : " إن كان عندك ماء بات في شنة وإلا كرعنا ؟ " فقال : عندي ماء بات في شن فانطلق إلى العريش فسكب في قدح ماء ثم حلب عليه من داجن فشرب النبي صلى الله عليه وسلم ثم أعاد فشرب الرجل الذي جاء معه . رواه البخاري

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری (یعنی ابوالہیثم جن کا ذکر پہلے بھی گزرا ہے ) کے باغ میں تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صحابی (یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) بھی تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (باغ میں پہنچ کر ) سلام علیک کی، ان انصاری نے جو اس وقت باغ میں پانی دے رہے تھے آپ کے سلام کا جواب دیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا " اگر تمہارے پاس پرانی مشک میں باسی پانی ہو (تو لاؤ تاکہ ہم پئیں ) اور اگر تمہارے پاس ایسا پانی نہ ہو تو پھر ہم ندی یا نہر سے منہ لگا کر پانی پی لیں گے ۔" (انہوں نے عرض کیا کہ '(جی ہاں ) میرے پاس پرانی مشک میں باسی پانی موجود ہیں ۔" چنانچہ وہ جھونپڑی میں گئے جو (انہوں نے اس باغ میں ڈال رکھی تھی ) اور ایک پیالہ میں پانی لے کر پھر اس پر (یعنی اس پیالہ میں ) گھر کی پلی ہوئی بکری کا دودھ دوہا (اور اس پیالہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ) جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا اس کے بعد وہ انصاری پہلے پیالہ کی طرح ایک اور پیالہ لے کر آئے ، جس کو ان صاحب نے پیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آئے تھے ۔" (بخاری )

تشریح
کر عنا کے معنی ہیں " ہم کرع میں سے پانی پی لیں گے " اور " کرع " اس جگہ کو کہتے ہیں ، جہاں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے، اسی طرح چھوٹی سی نہر اور تالاب کو بھی کرع کہتے ہیں اس اعتبار سے کر عنا کا مفہوم یہ ہوا کہ ہم بغیر کسی برتن کے اور بغیر ہاتھ لگائے نہر یا تالاب وغیرہ سے منہ لگا کر پانی پی لیں گے، اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ کرع اس کو کہتے ہیں کہ بغیر برتن اور ہاتھ کے منہ ڈال کر پانی پیا جائے جس طرح چوپائے تالاب وغیرہ میں اپنے پاؤں ڈال کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر منہ لگا کر پانی پیتے ہیں ۔
سیوطی کہتے ہیں کہ (اس حدیث سے مفہموم ہوتا ہے کہ کرع یعنی منہ ڈال کر پانی پینا جائز ہے جب کہ ) ابن ماجہ کی ایک روایت میں کرع کی ممانعت منقول ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ ابن ماجہ کی روایت کا تعلق نہی تنزیہی سے ہے اور یہاں جو بیان کیا گیا ہے وہ جواز کو ظاہر کرنے کے لئے تھا (مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں تو اس طرح جانوروں کے طریقہ پر پانی پینا مکروہ ہے لیکن مخصوص حالات میں اس طرح پانی پینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔)

یہ حدیث شیئر کریں