مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ پینے کی چیزوں کا بیان ۔ حدیث 204

وضو کا پانی اور آب زم زم کھڑے ہو کر پینا مستحب ہے

راوی:

وعن علي رضي الله عنه : أنه صلى الظهر ثم قعد في حوائج الناس في رحبة الكوفة حتى حضرت صلاة العصر ثم أتي بماء فشرب وغسل وجهه ويديه وذكر رأسه ورجليه ثم قام فشرب فصله وهو قائم ثم قال : إن أناسا يكرهون الشرب قائما وإن النبي صلى الله عليه وسلم صنع مثل ما صنعت . رواه البخاري

اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) انہوں نے ظہر کی نماز پڑھی اور پھر لوگوں کے معاملات و مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے کوفہ کی ایک بلند و کشادہ جگہ پر اپنی مجلس قائم کی (اور وہاں لوگوں کے جھگڑوں اور معاملوں کو سن سن کر فیصلہ کرتے رہے ) یہاں تک کہ عصر کا وقت آ گیا جب (وضو کے لئے ) پانی لایا گیا تو انہوں نے (اپنی پیاس بجھانے کے لئے وضو سے پہلے اس پانی میں سے ) پیا اور پھر انہوں نے (وضو کے لئے) اپنا منہ اور اپنے ہاتھ دھوئے اور راوی نے یہ ذکر کیا کہ (انہوں نے ) اپنا سر کا مسح اور اپنے پاؤں (دھوئے ) اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور وضو کا بچا ہوا پانی اس حالت میں پیا کہ وہ کھڑے ہوئے تھے اور پھر فرمایا کہ بعض لوگ کھڑے ہو کر پینے کو کراہت پر محمول کرتے ہیں یعنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کھڑے ہو کر پانی پینا مکروہ ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا ہے جیسا کہ (ابھی ) میں نے کیا ۔" (بخاری )

تشریح
اور راوی نے یہ ذکر کیا الخ " کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اوپر کے (یعنی پہلے ) راوی نے جہاں ہاتھ اور منہ دھونے کا ذکر کیا تھا وہیں سر اور پیروں کے بارے میں بھی ذکر کیا تھا لیکن جب نیچے کے (یعنی بعد کے ) راوی نے حدیث نقل کی تو وہ پہلے راوی کے قول کی تفصیل بھول گیا اور اسے یاد نہیں رہا کہ پہلے راوی نے یہ کہا تھا (کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے پیروں کو دھویا جیسا کہ بظاہر یہی واضح ہوتا ہے یا یہ کہ پہلے راوی نے یہ بیان کیا تھا کہ انہوں نے اپنے سر کا بھی مسح کیا، اور پیروں کا بھی مسح کیا جیسا کہ اسی واقعہ کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ایک روایت میں یہی ذکر کیا گیا ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ پیروں کے مسح سے مراد پیروں کو ہلکے طور پر دھونا ہے، اور یا یہ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت موزے پہن رکھے ہوں گے، اس لئے انہوں نے پیروں پر مسح کیا ۔
اس حالت میں پیا کہ وہ کھڑے ہوئے تھے " یہ جملہ دراصل تاکید کے طور پر ہے تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ کھڑے ہونے کے بعد پھر بیٹھ کر انہوں نے پانی پیا ہو گا چنانچہ اس بات کو مکرر واضح کیا گیا کہ انہوں نے اسی طرح کھڑے کھڑے وضو کا بچا ہوا پانی پیا ۔
واضح رہے کہ احادیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے کی ممانعت بیان کی گئی ہے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ کا عمل اس کے برخلاف بھی ثابت ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پہلے گزر ہی چکا ہے اور مواہب لدنیہ میں حضرت جبیر بن مطعم سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ کھڑے ہو کر پانی پی رہے تھے اسی طرح حضرت امام مالک نے بیان کیا ہے کہ مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے ۔ لہٰذا اس مسئلہ میں جو اس طرح کا تضاد و تعارض واقع ہوا ہے اس کو دور کرنے کے لئے علماء نے یہ کہا ہے کہ اس بارے میں جو ممانعت منقول ہے وہ اصل میں نہی تنزیہہ کے طور پر ہے، یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ممانعت کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو ایک عادت و معمول بنا لیں (ویسے گاہ بگاہ یا کسی عذر کی بنا پر کھڑے ہو کر پانی پی لینے میں کوئی مضائقہ ) اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کھڑے ہو کر پانی پیا اس کا مقصد محض اس جواز کو بیان کرنا تھا علاوہ ازیں آب زمزم اور وضو کا بچا ہوا پانی اس ممانعت سے مستثنیٰ ہے بلکہ ان کو تو کھڑے ہی ہو کر پینا مستحب ہے ، چنانچہ بعض فقہی روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ زمزم اور وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیا جائے البتہ اور پانی کھڑے ہو کر نہ پیا جائے ۔

یہ حدیث شیئر کریں