پرہیز گار لوگوں کی ضیافت کرنا زیادہ بہتر ہے
راوی:
وعن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " مثل المؤمن ومثل الإيمان كمثل الفرس في آخيته يجول ثم يرجع إلى آخيته وإن المؤمن يسهو ثم يرجع إلى الإيمان فأطعموا طعامكم الأتقياء وأولوا معروفكم المؤمنين " . رواه البيهقي في " شعب الإيمان " وأبو نعيم في " الحلية "
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " مؤمن اور ایمان کی مثال اس گھوڑے کی سی ہے جو اپنی رسی میں بندھا ہوا ہوتا ہے اور ادھر ادھر چکر لگانے کے بعد پھر اپنی رسی کے پاس آ جاتا ہے ، اور (اسی طرح مؤمن غفلت و کوتاہی کرتا ہے لیکن پھر ایمان کی طرف لوٹ آتا ہے لہٰذا تم اپنا کھانا متقی و پرہیز گار لوگوں کو کھلاؤ ، اور اپنے عطایا سے سب مسلمانوں کو نوازو۔" اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابونعیم نے حلیہ میں نقل کیا ہے ۔ "
تشریح
اخیۃ اصل میں اس لکڑی کو کہتے ہیں جس کے دونوں سروں کو کنڈے کی طرح دیوار میں مضبوطی سے گاڑ دیتے ہیں اور پھر اس لکڑی میں رسی سے گھوڑے وغیرہ کو باندھ دیتے ہیں اور اس کے پاس گھاس وغیرہ ڈال دیتے ہیں، لہٰذا فرمایا گیا کہ جس طرح کوئی گھوڑا اپنے اخیہ یعنی کنڈے سے بندھا ہوا ادھر ادھر چکر لگاتا ہے اور پھر اپنے اخیہ کے پاس آ کر کھڑا ہو جاتا ہے نیز یہ تو ہوتا ہے کہ وہ اپنے کنڈے سے کبھی نزدیک ہو جاتا ہے کبھی دور، مگر اس سے بالکل جدا نہیں ہو سکتا ٹھیک یہی حال ایمان اور مؤمن کے درمیان تعلق کا ہوتا ہے کہ کبھی تو اعمال صالحہ کے ذریعہ اس کو قرب الہٰی حاصل ہوتا ہے اور کبھی گناہوں کی وجہ سے بعد ہو جاتا ہے مگر اصل میں ایمان سے جدا نہیں ہوتا، چنانچہ اگر وہ گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے تو آخر کار اس گناہ پر نادم ہو کر استغفار کرتا ہے اور اپنی فوت شدہ عبادات کا تدارک کر کے کمال ایمان کا درجہ حاصل کر لیتا ہے ،
" لہٰذا تم اپنا کھانا پرہیز گار لوگوں کو کھلاؤ " یہ جملہ اصل میں جزا ہے شرط مخدوف کی، اس اعتبار سے پورا مفہوم یوں ہو گا کہ اس مثال کے مطابق جب " ایمان " کی وہی حیثیت ہوئی جو اخیہ یعنی کنڈے کی ہے تو ان چیزوں کو مضبوط و قوی کرنے کے طریقے اختیار کرو جو تمہارے اور ایمان کے درمیان وسائل کا درجہ رکھتے ہیں اور اس کا ایک بہترین و سہل طریقہ ضیافت کرنا ( کھانا کھلانا) ہے رہی یہ بات کہ کھانا کھلانے کے سلسلے میں پرہیز گاری کی تخصیص کیوں ہے تو اس کا سبب یہ ظاہر کرنا ہے کہ اگرچہ ہر بھوکے کو کھانا کھلانا جائز اور ایک نیک عمل ہے خواہ وہ پرہیز گار ہو یا غیر پرہیز گا، لیکن اول تو اولی یہ ہے کہ اگر کسی بھوکے کو کھانا کھلانا جائز منظور ہے تو ایسے بھوکے کو کھلاؤ جو پرہیز گار اور اللہ ترس ہو دوسرے یہ کہ جب تم پرہیز گاروں کو کھانا کھلاؤ گے تو نہ صرف یہ کہ تمہیں اس نیک عمل پر ثواب ملے گا بلکہ وہ تمہارا کھانا کھا کر جو عبادت کریں گے اس کا ثواب تمہیں بھی ملے گا اور وہ تمہارے حق میں جو دعا کریں گے وہ بھی قبول ہو گی لہٰذا پرہیز گاروں کی تخصیص مذکورہ سبب سے ہے ورنہ جہاں تک مطلق احسان و اعانت کا تعلق ہے وہ سب مسلمانوں کے ساتھ کرنی چاہئے، جیسا کہ فرمایا گیا " اور عطایا سے سب مسلمانوں کو نوازو۔"