کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے طلب اجازت کا جواب نہ ملے تو واپس چلے آؤ
راوی:
وعن أنس أو غيره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استأذن على سعد بن عبادة فقال : " السلام عليكم ورحمة الله " فقال سعد : وعليكم السلام ورحمة الله ولم يسمع النبي صلى الله عليه وسلم حتى سلم ثلاثا ورد عليه سعد ثلاثا ولم يسمعه فرجع النبي صلى الله عليه وسلم فاتبعه سعد فقال : يا رسول الله بأبي أنت وأمي ما سلمت تسليمة إلا هي بأذني : ولقد رددت عليك ولم أسمعك أحببت أن أستكثر من سلامك ومن البركة ثم دخلوا البيت فقرب له زبيبا فأكل نبي الله صلى الله عليه وسلم فلما فرغ قال : " أكل طعامكم الأبرار وصلت عليكم الملائكة وأفطر عندكم الصائمون " . رواه في " شرح السنة "
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا ان کے علاوہ کسی اور (صحابی ) سے روایت ہے کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے (ہاں پہنچ کر ان سے ) گھر میں آنے کی اجازت طلب کی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دروازہ پر کھڑے ہو کر ) فرمایا کہ " اسلام علیکم ورحمتہ اللہ تم پر اللہ کی سلامتی اور اس کی رحمت نازل ہو (کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟) سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (گھر میں سے جواب دیا کہ " وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اللہ کی سلامتی اور اس کی رحمت نازل ہو۔" لیکن انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ جواب نہیں سنایا یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ سلام کیا اور سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مرتبہ جواب دیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا نہیں، یعنی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کا جواب تینوں مرتبہ قصدا بہت آہستہ آواز میں دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن نہ سکیں، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ان کا جواب نہ سن کر ) واپس لوٹ پڑے اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے جب یہ دیکھا کہ جس چیز کو میں نے حصول سعادت میں زیادتی کا ذریعہ بنانا چاہا تھا وہ میرے لئے بالکل ہی محرومی کا باعث بنی جارہی ہے اور ایک طرح سے سوء ادبی کی صورت بھی پیدا ہو گئی ہے تو وہ لپک کر گھر سے نکلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آئے اور عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی بار بھی سلام کیا میرے کانوں نے سنا اور حقیقت یہ ہے کہ میں (ہر بار ) جواب بھی دیتا تھا البتہ میں اس جواب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں تک نہیں پہنچنے دیتا تھا، کیونکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ سے زیادہ سلام و برکت کا خواہش مند تھا (یعنی میرا مقصد یہ تھا کہ میرا جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں تک نہ
پہنچے تاکہ آپ جتنا زیادہ سلام کریں گے میرے حق میں اتنا زیاہ حصول برکت و سعادت کا ذریعہ ہو گا )
چنانچہ (حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے اس اظہار حقیقت اور عذر خواہی کے بعد ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکان میں داخل ہوئے اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خشک انگور پیش کئے جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے سے فارغ ہوئے اور ( حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دعا کرتے ہوئے ) فرمایا کہ " اللہ کے نیک بندے تمہارے کھانا کھائیں، فرشتے تمہارے لئے استغفار کریں ، اور روزے دار تمہارے ہاں افطار کریں ۔" (شرح السنۃ)