برائی کا بدلہ برائی نہیں ہے
راوی:
وعن أبي الأحوص الجشمي عن أبيه قال : قلت : يا رسول الله أرأيت إن مررت برجل فلم يقرني ولم يضفني ثم مر بي بعد ذلك أأقريه أم أجزيه ؟ قال : " بل اقره " . رواه الترمذي
اور حضرت ابوالاحوص جشمی اپنے والد حضرت مالک بن فضلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا، میں نے (ایک دن ) عرض کیا کہ " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں کسی شخص کے ہاں سے گزروں یعنی اس کے یہاں مہمان ہوں اور وہ میری مہمانداری نہ کرے اور نہ میری مہمان داری کا حق ادا کرے اور پھر اس کے بعد اس کا گزر میرے یہاں ہو یعنی وہ میرے یہاں آ کر مہمان ہو، تو کیا میں اس کی مہمان داری کروں یا اس سے بدلہ لوں یعنی میں بھی اس کے ساتھ وہی سلوک کروں جو وہ میرے ساتھ کر چکا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " (نہیں اس سے بدلہ نہ لو ) بلکہ اس کی مہمان داری کرو۔" (ترمذی )
تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ برائی کا بدلہ یہ نہیں ہے کہ تم بھی برائی کرو بلکہ جس شخص نے تمہارے ساتھ برا سلوک کیا ہے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہی سب سے اچھا بدلہ ہے ۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے ۔
بدی رابدی سہل باشد جزا
اگر مردے احسن الیٰ من اساء