مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کھانوں کے ابواب ۔ حدیث 180

مہمان داری کرنا واجب نہیں ہے

راوی:

وعن عقبة بن عامر قال : قلت للنبي صلى الله عليه وسلم : " إنك تبعثنا فتنزل بقوم لا يقروننا فما ترى ؟ فقال لنا : " إن نزلتم بقوم فأمروا لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا فإن لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف الذي ينبغي لهم "

اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں (جہاد یا کسی اور کام کے لئے ) کہیں بھیجتے ہیں تو (ایسا بھی ہوتا ہے کہ ) ہمیں ایسے لوگوں میں (بھی ) قیام کرنا پڑتا ہے جو ہماری مہمان داری نہیں کرتے (ایسی صورت میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں (آیا ہم ان سے زبردستی اپنی مہمان داری کرا سکتے ہیں یا نہیں ؟) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ " اگر تم (اپنے سفر کے دوران ) کسی قوم کے درمیان قیام کرو ، اور وہ تمہیں وہ چیز دیں جو ایک مہمان (کو دینے ) کے لائق ہے تو تم اس کو قبول کرو، اور اگر وہ ایسا نہ کریں ( یعنی مہمان داری کا حق ادا نہ کریں ) تو تم ان سے مہمان کا وہ حق لے سکتے ہو جو ایک مہمان کے لائق ہے ۔" (بخاری ومسلم )

تشریح
اس حدیث کا ظاہری مفہوم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر میزبان مہمان داری کے حقوق ادا نہ کرے تو مہمان اس سے اپنا حق زبردستی لے سکتا ہے، اس اعتبار سے یہ حدیث ان حضرات کے مسلک کی دلیل بھی ہے جو ضیافت یعنی مہمان کو کھلانا پلانا ایک واجب حق قرار دیتے ہیں لیکن جمہور علماء کا مسلک چوں کہ یہ نہیں ہے اس لئے ان کی طرف سے اس حدیث کی کئی تاویلیں کی جاتی ہیں، ایک تو یہ کہ یہ حدیث اصل میں محمصہ (خالی پیٹ ہونے) اور اضطرار بھوک کی وجہ سے بیتاب و مضطر ہونے ) کی صورت پر محمول ہے اور ایسی صورت میں جب کہ مہمان سخت بھوکا اور مضطر ہو اس کی ضیافت کرنا بلا شبہ میزبان پر واجب ہو گا کہ اگر وہ (میزبان ) اس حق کو ادا نہ کرے تو یہ حق اس سے زبردستی لیا جا سکتا ہے ، دوسرے یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا اس وقت محتاج اور فقراء کی خبر گیری کرنی واجب تھی مگر جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں عام طور پر فقر و احتیاج کی جگہ وسعت و فراخی پیدا فرما دی تو یہ حکم منسوخ قرار دیا گیا، اور تیسرے یہ کہ اس ارشاد گرامی کا تعلق اہل ذمہ وہ غیر مسلم جن کا مسلمان سے جان و مال کی مصالحت کا معاہدہ ہو چکا ہو ) کے یہاں قیام کرنے سے تھا جب کہ ان کے ساتھ معاہدہ کی شرط کی بنا پر مسلمانوں کی مہمان داری کرنا ان پر واجب تھا اور جو حق واجب ہو اس کو زبر دستی بھی لیا جا سکتا ہے، اور چوتھے یہ کہ یہ حدیث " معاوضہ اور بدلہ " کی صورت پر محمول ہے یعنی اگر کچھ لوگ (مثلاً مسافر ) کسی جگہ قیام کریں، اور وہاں کے لوگ ( نہ صرف یہ کہ ان کی ضیافت نہ کریں بلکہ ان کے ساتھ ایسی چیز فروخت کرنے سے انکار کریں جو ان (مہمان مسافروں ) کے پاس نہیں ہے، نیز وہ اضطرار (بیتابی ) کی حالت میں ہوں تو ان کے لئے جائز ہے کہ وہ (وہاں کے لوگوں سے ) اس چیز کو زبردستی خرید لیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں