مہمان کو تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرنا چاہئے
راوی:
وعن أبي شريح الكعبي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته يوم وليلة والضيافة ثلاثة أيام فما بعد ذلك فهو صدقة ولا يحل له أن يثوي عنده حتى يحرجه "
اور حضرت شریح کعبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے مہمان کی تعظیم و خاطر داری کرے مہمان کے ساتھ تکلف و احسان کرنے کا زمانہ ایک دن و ایک رات ہے اور مہمان داری کرنے کا زمانہ تین دن ہے، اس (تین دن کے بعد جو دیا جائے گا وہ ہدیہ و خیرات ہو گا اور مہمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ میزبان کے ہاں تین دن کے بعد اس کی استدعا کے بغیر ٹھہرے کہ وہ تنگی میں مبتلا ہو جائے ) ۔" ( بخاری ومسلم )
تشریح
نہایہ جزری میں اس حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ مہمان کی تین دن اس طرح مہمان داری کی جائے کہ پہلے دن اس کے کھانے پینے کی چیزوں میں جو تکلف و اہتمام ہو سکے وہ کیا جائے ، اور پھر دوسرے و تیسرے دن بلا تکلف و اہتمام جو کچھ حاضر ہو اس کو مہمان کے سامنے پیش کر دے، اس کے بعد اس کو کھانے پینے کی اتنی چیزیں دے دے جن کے سہارے وہ ایک دن اور ایک رات کا سفر طے کر سکے ۔
حدیث میں " جائزہ " کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لفظ آیا ہے اس کا مفہوم یہی ہے ، ویسے لغت کے اعتبار سے" جائزہ " کے معنی بخشش تحفہ اور انعام کے ہیں، لیکن یہاں وہ چیز مراد ہے جو ایک دن کی غذا کی ضرورت کے بقدر ہو اس کے سہارے منزل تک پہنچ جائے مہمان کو " جائزہ " کے بعد جو کچھ دیا جائے گا وہ ایک زائد چیز ہو گی اور صدقہ بھلائی اور احسان کے حکم میں ہو گا ۔ اس وضاحت کے مطابق " جائزہ " یعنی مہمان کو ایک دن کے بقدر زاد راہ دینا ضیافت یعنی مہمان داری کے بعد ہو گا (جب کہ حدیث میں اس کا ذکر ضیافت سے پہلے کیا گیا ہے ) نیز یہ جائزہ، مہمان داری کرنے سے ایک زائد چیز ہو گا ۔
یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ یہ " جائزہ " تین دن مہمان داری کرنے سے زائد کوئی چیز نہیں ہے ۔ بلکہ حدیث میں اس کا ذکر اس تکلف و اہتمام اور الطاف و عنایات کی وضاحت کے طور پر ہے جو میزبان مہمان داری کے تین دنوں میں سے پہلے اپنے مہمان کے لئے کرتا ہے، چنانچہ ابوداؤد کی عبارت سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ " جائزہ " مہمان کی اس خاطر داری اور تواضع و مدارات کو کہا گیا ہے جو پہلے دن کی جاتی ہے اسی طرح حضرت مولانا شاہ عبد الحق محدث دہلوی بھی یہی فرماتے تھے کہ ہمارا علم بھی یہ ہے کہ " جائزہ ' کے یہی معنی ہیں ۔
" مہمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی کے ہاں مہمان جائے اس کے لئے یہ مطلقاً مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے میزبان کے ہاں تین دن سے زائد ٹھہرے، ہاں اگر خود میزبان کی خواہش ہو اور وہ درخواست کرے تو اس کی استدعا پر تین دن سے زائد ٹھہرنے میں مضائقہ نہیں ہو گا ! اسی لئے علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی مسافر (مہمان ) کسی کے یہاں ٹھہرے اور کسی عذر مثلاً بیماری وغیرہ کے سبب اس کو تین دن سے زائد قیام کرنا پڑ جائے تو وہ تین دن کے بعد اپنے پاس سے کھائے پیئے صاحب خانہ کو تنگی و کلفت میں نہ ڈالے ،