غیرمسلم معالج سے رجوع کرنا جائز ہے
راوی:
وعن سعد قال : مرضت مرضا أتاني النبي صلى الله عليه وسلم يعودني فوضع يده بين ثديي حتى وجدت بردها على فؤادي وقال : " إنك رجل مفؤود ائت الحارث بن كلدة أخا ثقيف فإنه رجل يتطبب فليأخذ سبع تمرات منم عجوة المدينة فليجأهن بنواهن ثم ليلدك بهن " . رواه أبو داود
اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ ) میں بہت سخت بیمار ہوا (تو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کی غرض سے میرے پاس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس وقت ) میری دونوں چھاتیوں کے درمیان (یعنی سینہ پر) اپنا دست مبارک رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے دل پر محسوس کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک ایسے شخص ہو جو دل کے درد میں مبتلا ہے (یعنی تم قلب کے مریض ہو ) لہٰذا تم حارث بن کلدہ کے پاس جاؤ جو قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ وہ شخص طب (علاج معالجہ کرنا ) جانتا ہے اس کو چاہئے کہ وہ مدینہ کی (سب سے اعلیٰ قسم کی کھجور ) عجوہ میں سے سات کھجوریں لے ۔ پھر ان کو گٹھلیوں سمیت کوٹ لے اور اس کے بعد ان کو (دوا کی صورت میں تمہارے منہ میں ڈالے ۔" (ابوداؤد )
تشریح
اگر یہ سوال پیدا ہو کہ اس کا کیا سبب تھا کہ آپ نے سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہلے تو ایک معالج کے پاس جانے کا حکم دیا اور پھر خود ہی علاج بھی تجویز کیا لیکن دوا بنانے کا کام معالج کے سپرد کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو آپ نے سعد کو معالج کے پاس جانے کا مشورہ دیا تاکہ وہ ان کو دیکھ کر ان کا علاج کرے ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا ایک آسان علاج یاد آ گیا جو جلد فائدہ کرنے والا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہ شفقت و تعلق اس کو تجویز کیا ۔گویا ان کو معالج کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا کہ وہ مبادا ان کو دور دراز کے علاج میں ڈال دے اور چونکہ اس دوا کا بنانا اور اس کو استعمال کرانا معالج کے لئے زیادہ آسان تھا اس لئے اس کام کو اس کے سپرد فرمایا ۔
علماء نے لکھا ہے یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ غیر مسلم معالج سے رجوع و مشورہ کرنا جائز ہے کیوں کہ حارث بن کلدہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مراد ہے اس کا اسلام قبول کرنا ثابت نہیں ہے ۔