مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ جنگ کرنے کا بیان ۔ حدیث 1374

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فتنوں کا دروازہ کھلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے

راوی:

عن شقيق عن حذيفة قال كنا عند عمر فقال أيكم يحفظ حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتنة ؟ فقلت أنا أحفظ كما قال قال هات إنك لجريء وكيف ؟ قال قلت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول فتنة الرجل في أهله وماله ونفسه وولده وجاره يكفرها الصيام والصلاة والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فقال عمر ليس هذا أريد إنما أريد التي تموج كموج البحر . قال ما لك ولها يا أمير المؤمنين ؟ إن بينك وبينها بابا مغلقا . قال فيكسر الباب أويفتح ؟ قال قلت لا بل يكسر . قال ذاك أحرى أن لا يغلق أبدا . قال فقلنا لحذيفة هل كان عمر يعلم من الباب ؟ قال نعم كما يعلم أن دون غد ليلة إني حدثته حديثا ليس بالأغاليط قال فهبنا أن نسأل حذيفة من الباب ؟ فقلنا لمسروق سله . فسأله فقال عمر . متفق عليه

حضرت شقیق تابعی رحمہ اللہ ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا۔ ہم ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے کہ انہوں نے ہم سے پوچھا کہ تم میں سے کسی شخص کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث یاد ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ کے سلسلے میں ارشاد فرمائی ہے، میں نے کہا کہ مجھے یاد ہے اور بالکل اسی طرح یاد ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے (یعنی میرے حافظہ میں وہ حدیث کسی کمی وبیشی کے بغیر حرف بہ حرف محفوظ ہے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ اچھا وہ حدیث بیان کرو تم روایت حدیث میں بہت دلیر ہو، جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے اس کو نقل کرو اور اس کی کیفیت بیان کرو۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آدمی کا فتنہ (یعنی اس کی آزمائش اور ابتلا) اس کے اہل وعیال میں ہے، اس کے مال میں ہے، اس کے نفس میں ، اس کی اولاد میں ہے اور اس کے ہمسایہ میں ہے۔ اس کے اس فتنہ کو اور اس فتنہ کے سبب وہ جو گناہ کرتا ہے، اس کو روزے ، نماز ، صدقہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دور کر دیتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سن کر فرمایا کہ میرا مدعا اس فتنے سے نہیں تھا ، میں تو اس فتنے کے بارے میں سننا چاہتا تھا جو سمندر کی موجوں کی طرح جوش مارے گا؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا امیر المومنین بھلا آپ کو اس فتنہ سے کیا تعلق؟ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان تو ایک بند دروازہ حائل ہے ۔ یعنی اس فتنہ کا آپ کو کیوں فکر ہے ، اس کے برے اثرات آپ تک تو پہنچیں گے نہیں کیونکہ اس فتنہ کا ظہور آپ کی زندگی کے بعد ہوگا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا یہ بتاؤ کہ وہ دروازہ کہ جس سے فتنہ نکلے گا توڑا جائے گا؟ (یعنی اس کو اس طرح توڑا جائے گا) یا کھولا جائے گا؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جواب دیا کہ دروازہ کھولا نہیں جائے گا بلکہ توڑا جائے گا ۔ یعنی اس کو اس طرح توڑ پھوڑ کر برابر کر دیا جائے کہ پھر اس کا بند ہونا یا قابل مرمت ہونا ممکن نہیں ہوگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا ۔ اس دروازے کے بارے میں کہ جو کھولا نہیں جائے گا بلکہ توڑا جائے گا زیادہ قرین حقیقت بات یہ ہے کہ وہ کبھی بند ہی نہ ہو۔ حدیث کے راوی حضرت شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے واقف تھے کہ دروازے سے مراد کون ہے؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے واقف تھے جیسا کہ وہ اس بات سے واقف تھے کہ کل کے دن سے پہلے رات آئے گی (یعنی جس طرح ہر شخص یقینی طور پر جانتا ہے کہ کل آنے والے دن سے پہلے رات کا آنا ضروری ہے اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ یقینی علم رکھتے تھے کہ دروازہ سے مراد کون ہے) اور اس میں شک نہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے وہ حدیث بیان کی جس میں غلطیاں نہیں ہیں۔ حضرت شقیق کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہمیں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ دروازے سے مراد کون ہے البتہ ہم نے حضرت مسروق سے عرض کیا جو وہاں موجود تھے کہ آپ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھ لیجئے ، چنانچہ انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دروازے سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں، یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات ایک ایسے دروازے کی طرح ہے جس نے اس امت اور اسلامی مملکت میں فتنہ وفساد کے درآنے سے روک رکھا ہے ان کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل جائے گا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
" تم روایت حدیث میں بہت دلیر ہو" حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ ان کے اظہار ناگواری کا بھی احتمال رکھتا ہے اور ان کے اظہار تحسین کا بھی یعنی ایک احتمال تو یہ ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے چونکہ اور صحابہ کی موجودگی میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کو بعینہ یاد رکھتا ہوں اور اس بارے میں میرا حافظہ بہت قوی اور قابل اعتماد ہے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی یہ بات ناگوار ہوئی ، پس انہوں نے اس ناگواری کو ظاہر کرنے کے لئے فرمایا کہ تم بڑے عجیب قسم کے دلیر ہو؟ آخر تمہیں ایک ایسی بات کا دعویٰ کرنے کی جرات کیسے ہو گئی جس کو نہ میں جانتا ہوں اور نہ یہاں موجود دوسرے صحابہ جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ اچھا اگر تمہیں اپنے حافظہ پر ایسا ہی ناز ہے تو سناؤ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا فرمایا تھا ؟ یہ تو پہلا احتمال ہوا دوسرا احتمال یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس جملے کے ذریعے دراصل حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی تحسین وتائید فرمائی ، یعنی انہوں نے گویا یہ فرمایا کہ تمہارے دعویٰ کی تصدیق کرتا ہوں کیونکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس امت میں پیدا ہونے والے فتنوں اور ظاہر ہونے والی برائیوں کے بارے میں بڑی جرات اور دلیری کے ساتھ سوالات کیا کرتے تھے اور اکثر و بیشتر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتے رہتے تھے ، لہٰذا تمہیں یقینا فتنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کا زیادہ علم ہوگا اور اس سلسلے کی حدیث پوری طرح یاد ہوگی ، ہمیں وہ حدیث ضرور سناؤ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا فرمایا۔
" آدمی کا فتنہ اس کے اہل وعیال میں ہے الخ" کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کا تعلق مختلف چیزوں جیسے اہل وعیال ، اور مال ودولت وغیرہ سے قائم کیا، پھر اس کو ان چیزوں کے حقوق پہچاننے اور ان حقوق کو ادا کرنے کا ذمہ قرار دے کر ایک طرح کی آزمائش سے دو چار کیا ہے لیکن یہ انسان کی غفلت ونادانی ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کی رعایت ملحوظ نہیں رکھتا اور جو حقوق اس پر عائد کئے گئے ہیں ان کی ادائیگی میں کوتاہی وتقصیر کرتا ہے ، ان متعلق چیزوں کے سلسلے میں اللہ نے اس کو جو حکم دیا ہے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ان چیزوں کی وجہ سے نہ صرف گناہ اور ممنوع امور کے ارتکاب کا وبال اپنے سر لیتا ہے بلکہ خود کو تعب و رنج اور مشقت وایذاء میں گرفتار کرتا ہے لہٰذا اس صورت میں انسان کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ حقوق کی ادائیگی میں جو کوتاہی اور گناہوں کا جو ارتکاب اس سے ہوتا ہے اس کے ازالہ اور کفارہ کے لئے اچھے کام جیسے نماز، روزہ اور صدقہ وخیرات وغیرہ کرتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (ان الحسنات یذہبن السیئات) یعنی بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔
" میرا مدعا اس فتنہ سے نہیں تھا " یعنی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا کہ تم میں کسی شخص کو فتنہ کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث یاد ہے ، تو ان کا یہ پوچھنا دو احتمال رکھا تھا ۔ ایک یہ کہ فتنہ سے ان کی مراد امتحان و آزمائش ہو جس میں انسان کو اولاد ومال وغیرہ کے تعلق سے مبتلا کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے آیت (ولنبلونکم بشیء من الخوف والجوع) الخ ۔ اور دوسرے یہ کہ فتنہ سے ان کی مراد باہمی قتل وقتال اور افتراق وانتشار ہو ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوال کا تعلق اس دوسرے مفہوم سے تھا، یعنی انہوں نے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باہمی قتل وقتال اور افتراق وانتشار کے فتنہ وفساد کا ذکر فرمایا تھا۔ لیکن حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پہلے مفہوم سے متعلق حدیث کے بارے میں پوچھ رہے ہیں اور اسی لئے انہوں نے اس کے مطابق حدیث بیان کی، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے پوچھنے کا مدعا یہ فتنہ نہیں تھا، میری مراد اس فتنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سننا تھا جو باہمی قتل وقتال اور آپس میں ایک دوسرے کے خلاف جنگ و محاذ آرائی کی صورت میں اس امت پر سیاہ بادل کی صورت میں چھا جائے گا اور اس کے برے اثرات تمام مسلمانوں کو سخت مصائب وپریشانی میں مبتلا کر دیں گے۔
" آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان تو ایک بند دروازہ حائل ہے" بند دروازہ سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وجود بامسعود کی طرف اشارہ کرنا تھا، جیسا کہ حدیث کے آخری الفاظ سے اس کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے، چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ آپ جس فتنہ کے بارے میں پوچھ رہے ہیں وہ ابھی دور ہے، کیونکہ جب تک اس امت میں آپ کا وجود باقی ہے وہ فتنہ راہ نہیں پائے گا ہاں جب آپ اس دنیا سے اٹھ جائیں گے تو وہ فتنہ در آئے گا اور امت میں راہ پا جائے گا۔
" وہ دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا؟" یعنی آیا وہ دروازہ اتنا سخت اور مضبوط ہوگا کہ بغیر توڑے اس کو کھولا نہیں جا سکے گا یا اتنا کمزور اور ہلکا ہوگا کہ آسانی کے ساتھ اس کو کھول دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ کسی دروازہ کو توڑنے اور اس کو کھولنے میں فرق ہوتا ہے ۔ ایک دروازہ تو وہ ہوتا ہے جس کو توڑے بغیر آمدورفت کا راستہ بنانا ممکن نہیں ہوتا جب وہ دروازہ ٹوٹ جاتا ہے تو پھر اس کا بند ہونا ممکن نہیں ہوتا، اس کے برخلاف جو دروازہ صرف کھولا جاتا ہے اس کو بند کرنا ممکن ہوتا ہے، چنانچہ یہاں " بند دروازہ" تمثیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے ہے جس کا مقصد یہ تشبیہ دینا ہے کہ فرض کرو کہ دو گھر ہیں جن کے درمیان ایک دیوار حائل ہے اور اس دیوار میں ایک بند دروازہ کی وجہ سے فتنہ وفساد کو کوئی راہ نہیں ملتی کہ وہ امن وعافیت کے گھر میں در آئے اور اس گھر کے امن وسکون کو تہ وبالا کر دے پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حیات فتنوں کے روکے رکھنے والے بند دروازے کے مماثل اور اور ان کی موت، ان فتنوں کے دروازے کھل جانے کے مماثل
ہوئی ، اس طرح اس دروازے کو توڑے جانے کو ان کے قتل کے ساتھ اور اس دروازے کو کھولے جانے کو ان کی قدرتی موت کے ساتھ تشبیہ دی گئی۔

یہ حدیث شیئر کریں