مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ جنگ کرنے کا بیان ۔ حدیث 1372

بصرہ کے متعلق ایک پیشنگوئی

راوی:

وعن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يا أنس إن الناس يمصرون أمصارا فإن مصرا منها يقال له البصرة فإن أنت مررت بها أو دخلتها فإياك وسباخها وكلأها ونخيلها وسوقها وباب أمرائها وعليك بضواحيها فإنه يكون بها خسف وقذف ورجف وقوم يبيتون ويصبحون قردة وخنازير رواه أبو داود

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا۔ انس! لوگ کچھ نئے شہر بسائیں گے اور ان شہروں میں ایک شہر کا نام بصرہ ہوگا پس اگر تم اس شہر کے پاس سے گزرو یا اس شہر میں جاؤ تو اس کے اس علاقے کے قریب بھی نہ جانا جہاں کھاری زمین ہے ، نہ ان جگہوں کے قریب جانا جن کو کلاء کہا جاتا ہے، اسی طرح وہاں کی کھجوروں ، وہاں کے بازار ، وہاں کے بادشاہوں اور سرداروں کے دروازوں سے بھی دور رہنا ، صرف اس شہر کے کنارے کے حصے میں کہ جس کو ضواحی کہا جاتا ہے پڑے رہنا، کیونکہ جن جگہوں پر جانے سے تمہیں منع کر رہا ہوں وہاں ، زمین میں دھنسا دئیے جانے، پتھر برسائے جانے اور سخت زلزلوں کا عذاب نازل ہوگا نیز ان علاقوں میں ایک ایسی قوم ہوگی جس کے افراد ایک دن رات میں عیش وراحت کی نیند سوئیں گے لیکن جب صبح اٹھیں گے تو ان کی صورتیں بندر اور سور جیسی ہوں گی۔

تشریح
" سباخ" اصل میں سبخۃ کی جمع ہے جس کے معنی اس زمین کے ہیں جو کھاری اور بنجر ہو کہا جاتا ہے کہ سباخ بصرہ کے اس علاقہ کا نام بھی ہے جہاں کی زمین کھاری اور بنجر ہے۔ اسی طرح کلاء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھی بصرہ کے بعض مقامات کا نام ہے۔
ضواحی ضاحیۃ کی جمع ہے جس کے معنی شہر کا کنارہ اور شہر کی نواحی بستیاں ہیں ، ویسے ضاحیۃ البصر بصرہ کی ایک نواحی بستی کا نام بھی ہے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ضواحی سے مراد بصرہ پہاڑ ہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو بصرہ کے ضواحی میں پڑے رہنے کا جو حکم دیا وہ دراصل گوشہ نشینی اور کنارہ کشی اختیار کرنے کے حکم میں تھا۔
" ان کی صورتیں بندر اور سور جیسی ہونگی" یعنی وہ قوم اللہ کی نافرمانی اور سرکشی اور اپنی بد اعتقادی اور عملی گمراہیوں کی وجہ سے اس عذاب میں مبتلا کی جائے کہ اس قوم کے جو لوگ جوان ہوں گے وہ بندر کی صورت کے اور جو بوڑھے ہوں گے وہ سور کی صورت کے ہو جائیں گے ، پس اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسخ وخسف جیسے عذاب الٰہی اس امت میں بھی جائز الوقوع ہیں کیونکہ اگر اس طرح کے عذاب کا واقع ہونا سرے سے غیر ممکن ہوتا تو ان سے ڈرانے اور ان کے واقع ہونے کی جگہوں پر جانے سے روکنا ، بالکل بے فائدہ ہوتا، اور اس میں تو کوئی شک نہیں کہ احادیث میں اس طرح کے عذاب کی وعید فرقہ قدریہ کے بارے میں منقول ہے اور اسی بنا پر بعض شارحین نے یہ کہا ہے کہ اس حدیث میں اس طرح اشارہ ہے کہ حدیث میں مذکورہ مقامات فرقہ قدریہ کے لوگوں کا مسکن ہوں گے کیونکہ اس امت سے جن لوگوں پر مسخ وخسف کا عذاب نازل ہوگا وہ دراصل تقدیر الٰہی کو جھٹلانے والے ہوں گے۔
لفظ کلاء کاف کے زبر اور لام کی تشدید کے ساتھ بھی منقول ہے ، اور جیسا کہ اوپر بتایا کہ گیا یہ بصرہ میں ایک مقام کا نام ہے اور ایک شارح نے کہا ہے کہ اس سے مراد بصرہ کے ساحلی علاقہ کی وہ جگہ ہے جہاں جہاز اور کشتیاں لنگر ڈالتی ہیں اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ کلاء سے مراد بصرہ کا وہ علاقہ ہے جہاں جانوروں کی چراگاہ ہے ، اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ بعض نسخوں میں یہ لفظ لام کی تشدید اور مد کے بغیر منقول ہے جس کے معنی گھاس اور سبزہ کے ہیں ایک شارح نے لکھا ہے کہ ان جگہوں پر مسخ وخسف کے عذاب کے نازل ہونے کی وجہ شاید وہاں کے لوگوں کی خباثت اور سرکشی ہوگی، اسی طرح وہاں کی کھجوروں سے دور رکھنے کا مقصد ان کھجوروں کے باغات میں جانے سے روکنا ہے کیونکہ شاید ان باغات کا ماحول اور وہاں کے اثرات دین وایمان اور عزت وآبرو کو نقصان پہنچانے کا خوف رکھتے ہوں، نیز وہاں کے بازار، دینی احکام سے غفلت ولاپرواہی یا لہو ولعب اور خرید وفروخت کے معاملات میں بے ایمانی اور وہاں کے امراء حکام کے دروازوں پر ظلم وناانصافی کے چلن کی وجہ سے ان سے دور رہنے کا حکم دیا گیا۔
واضح رہے کہ مشکوۃ کے اصل نسخے میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مشکوۃ کے مؤلف کو اس حدیث کے صحیح ماخذ کا علم نہیں ہوگا لیکن جزری نے اس حدیث کے ماخذ کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے رواہ ابوداؤد من طریق لم یجزم بہا الراوی بل قال لااعلم عن موسی ابن انس عن انس بن مالک یعنی اس روایت کو ابوداؤد نے ایک ایسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس کے ایک راوی کے بارے میں انہوں نے بے یقینی کا اظہار کیا ہے، بلکہ انہوں نے اس راوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ جو اس سند میں داخل ہے کہا ہے کہ میں اس راوی کو نہیں جانتا ، ہاں انہوں نے اس حدیث کا راوی موسی بن انس کو ذکر کیا ہے جنہوں نے اس کو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے پس حدیث کے ماخذ اور اس کے راوی کو اس طرح سے بیان کرنا ابہام اور اشتباہ پر دلالت کرتا ہے، موسی بن مالک انصاری بصرہ کے قاضی اور تابعین میں سے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں