ترکوں کے متعلق پیش گوئی
راوی:
وعن بريدة عن النبي صلى الله عليه وسلم في حديث يقاتلكم قوم صغار الأعين يعني الترك . قال تسوقونهم ثلاث مرات حتى تلحقوهم بجزيرة العرب فأما السياقة الأولى فينجو من هرب منهم وأما الثانية فينجو بعض ويهلك بعض وأما الثالثة فيصطلمون أو كما قال . رواه أبو داود . ( إسناده جيد
حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس حدیث کے سلسلے میں جس کا شروع یہ ہے کہ تم سے ایک چھوٹی آنکھوں والی قوم یعنی ترک قوم جنگ کرے گی۔ یہ بھی روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم اس قوم کے لوگوں کو تین بار دھکیل دو گے یعنی تم ان پر غالب آؤ گے اور ان کو شکست دے کر بھاگنے پر مجبور کر دو گے۔ یہاں تک کہ تم ان کو جزیرہ عرب کی سرحد کے بار تک دھکیل دو گے ، جب تم ان کو پہلی مرتبہ شکست دے کر بھگاؤ گے تو بھاگ کھڑے ہونے والے لوگ اپنی جان بچا لیں گے۔ جب دوسری مرتبہ شکست دے کر بھگاؤ گے تو ان میں سے کچھ تو اپنی جان بچا کر نکل جائیں گے۔ اور کچھ موت کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ لیکن جب تیسری مرتبہ شکست دے کر بھگاؤ گے تو اس وقت وہ جڑ سے ختم ہو جائیں گے یعنی یہ تیسری شکست ان کا بالکل خاتمہ کر دے گی۔ یا اس کے مانند فرمایا۔ (ابو داؤد)
تشریح
" یعنی الترک " کے الفاظ راوی کے ہیں خواہ وہ صحابی ہو یا تابعی یعنی یا تو خود حضرت بریدہ نے یا ان سے روایت کرنے والے تابعی نے قوم صغار الاعین چھوٹی آنکھوں والی قوم کے بارے میں یعنی الترک کے ذریعے وضاحت کی اس قوم سے مراد ترک قوم ہے۔
" جزیرۃ العرب" جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے ۔ اس وقت کے جغرافیائی نقشہ کے مطابق حجاز، یمامہ اور یمن کے علاقوں کا نام تھا، اس علاقے کو جزیرۃ العرب اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ وہ تقریبا چاروں طرف سے پانی سے گھرا ہوا ہے اس کے جنوب میں بحر عرب، مشرق میں خلیج عربی، اور خلیج عمان، مغرب میں بحر احمر اور اس کے شمال میں دریائے فرات ہے۔
او کما قال (یا اس کے مانند فرمایا) یہ جملہ کسی حدیث کو بیان کرنے کے بعد اس صورت میں کہتے ہیں جب کہ حدیث بیان کرنے والا یہ گمان کرتا ہے کہ حدیث کے معنی تو پوری طرح یاد ہیں جس کو میں نے بیان کر دیا ہے، البتہ حدیث کے اصل الفاظ پوری طرح یاد نہیں ہیں۔ گویا یہ جملہ حدیث کے راوی کے کمال احتیاط پر دلالت کرتا ہے۔