مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ جنگ کرنے کا بیان ۔ حدیث 1360

رومیوں سے جنگ اور دجال کے قتل کی پیشگوئی

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تقوم الساعة حتى ينزل الروم بالأعماق أو بدابق فيخرج إليهم جيش من المدينة من خيار أهل الأرض يومئذ فإذا تصافوا قالت الروم خلوا بيننا وبين الذين سبوا منا نقاتلهم فيقول المسلمون لا والله لا نخلي بينكم وبين إخواننا فيقاتلونهم فينهزم ثلث لا يتوب الله عليهم أبدا ويقتل ثلثهم أفضل الشهداء عند الله ويفتتح الثلث لا يفتنون أبدا فيفتتحون قسطنطينية فبينا هم يقتسمون الغنائم قد علقوا سيوفهم بالزيتون إذ صاح فيهم الشيطان إن المسيح قد خلفكم في أهليكم فيخرجون وذلك باطل فإذا جاؤوا الشام خرج فبينا هم يعدون للقتال يسوون الصفوف إذ أقيمت الصلاة فينزل عيسى بن مريم فأمهم فإذا رآه عدو الله ذاب كما يذوب الملح في الماء فلو تركه لانذاب حتى يهلك ولكن يقتله الله بيده فيريهم دمه في حربته

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ رومی اعماق یا دابق میں آ نہ دھمکیں گے اور پھر مدینہ والوں کا ایک لشکر ان کے مقابلے کے لئے نکلے گا جس میں اس دن یعنی اس وقت کے روئے زمین کے سب سے بہتر لوگ شال ہوں گے جب لڑائی کے لئے صف بندی ہوگی تو رومی یہ کہیں گے کہ ہمارے ان لوگوں کے درمیان کہ جو ہمارے لوگوں کو قید کر کے لائے ہیں، جگہ خالی کر دو تاکہ ہم ان سے لڑیں (یعنی جن مسلمانوں نے اس سے پہلے ہمارے خلاف جہاد کیا اور ہمارے کچھ لوگوں کو قیدی بنا کر لے آئے ان مسلمانوں کو ہمارے مقابلہ پر لاؤ کیونکہ ہم تم سب مسلمانوں سے لڑنا نہیں چاہتے بلکہ بدلہ اتارنے کے لئے صرف ان ہی مسلمانوں سے لڑنا چاہتے ہیں۔ گویا رومی یہ بات اس لئے کہیں تاکہ مسلمان ان کی باتوں میں آ کر اپنی اجتماعیت کھو دیں اور باہمی تفریق کا شکار ہو جائیں) لیکن مسلمان ان کو جواب دیں گے کہ واللہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ہم تمہارے اور اپنے ان مسلمان بھائیوں کے درمیان جگہ خالی نہیں کر سکتے یعنی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ان مسلمان بھائیوں کو تو تمہارے مقابلہ پر لڑنے کے لئے آگے کر دیں اور خود ایک طرف ہو جائیں، اگر لڑیں تو ہم سب لڑیں گے اور ایک ساتھ لڑیں گے چنانچہ سارے مسلمان رومیوں سے لڑنا شروع کر دیں گے اور جب گھمسان کا رن پڑے گا تو ان مسلمانوں میں سے ایک تہائی مسلمان بیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوں گے، جن کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اور ایک تہائی مسلمان جام شہادت نوش کریں گے، جو یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین شہید قرار پائیں گے۔ اور باقی ایک تہائی مسلمان فتح یاب ہوں گے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مدد ونصرت کے ذریعے رومیوں کے مقابلے پر کامیابی عطا فرمائے گا اور ان کے ہاتھوں رومیوں کے شہروں کو فتح کرائے گا ان مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کبھی فتنہ میں نہیں ڈالے گا۔
پھر مسلمان قسطنطنیہ کو فتح کر لیں گے (یعنی اس شہر کو کافروں کے قبضہ سے لے لیں گے) اور اس کے بعد اس وقت جب کہ وہ مسلمان مال غنیمت تقسیم کرنے میں مصروف ہوں گے اور اپنی تلوار کو زیتون کے درختوں پر لٹکائے ہوئے ہوں گے اچانک شیطان ان کے درمیان یہ بات پھونک دے گا کہ مسلمانو! تم یہاں مصروف ہو جب کہ تمہاری عدم موجودگی میں مسیح دجال تمہارے گھروں میں پہنچ گیا ہے ۔ اسلامی لشکر کے لوگ یہ سنتے ہی قسطنطنیہ سے نکل کھڑے ہوں گے لیکن شیطان کی یہ خبر سراسر جھوٹی ثابت ہوگی، البتہ جب مسلمان شام پہنچیں گے تو پھر دجال ظاہر ہوگا مسلمان اس سے لڑنے کی تیاری کریں گے اور صف بندی میں مشغول ہوں گے کہ نماز کا وقت آ جائے گا اور مؤذن تکبیر کہنے کے لئے کھڑا ہو چکا ہوگا۔ اتنے میں حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے منارے پر اتریں گے پھر قدس آئیں گے اور مسلمانوں کی امات کریں گے۔ پھر اللہ کا وہ دشمن یعنی دجال جو اس وقت مسلمانوں کو گھیرے ہوئے ہوگا جب حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھے گا تو اس طرح گھلنا شروع ہو جائے گا جس طرح نمک پانی میں گھلنے لگتا ہے کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام اس کو اس حالت میں چھوڑ دیں اور قتل نہ کریں تو وہ سارا گھل جائے گا اور حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کئے بغیر خود مر جائے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت ومرضی چونکہ یہ ہوگی کہ اس کی موت حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں واقع ہو اس لئے اس کو حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل کروائے گا ، پھر حضرت عیسی علیہ السلام مسلمانوں کو یا کافروں کو اور یا سب کو دجال کا خون اپنے نیزے کے ذریعے دکھائے گا یعنی حضرت عیسی علیہ السلام جس نیزے سے دجال کو قتل کریں گے اور جو اس کے خون سے آلودہ ہوگا اس کو لوگوں کو دکھائیں گے کہ دیکھو میں نے اس دشمن اللہ کا کام تمام کر دیا ہے۔ (مسلم)

تشریح
" اعماق' ' اطراف مدینہ میں ایک جگہ کا نام تھا اسی طرح " وابق" مدینہ کے ایک بازار کا نام تھا ۔ لیکن ایک قول جو زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ اس حدیث میں مدینہ سے مراد شہر حلب ہے جو ملک شام میں واقع ہے اور اعماق و وابق حلب و انطاکیہ کے درمیان دو مقامات کے نام ہیں، چنانچہ کتاب ازہار میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ مدینہ سے مراد مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراد لینا صحیح نہیں ہے کیونکہ حدیث میں جس زمانہ کے واقعہ کے بارے میں پیش گوئی فرمائی گئی ہے اس وقت مدینہ منورہ کسی طرح بھی تخریب کاری یا کسی اسلام دشمن حملہ سے بالکل محفوظ ومامن ہوگا بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ مدینہ سے مراد شہر دمشق ہے۔
" جن کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرے گا " سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ان لوگوں کی موت کفر کی حالت میں ہوگی اور وہ کبھی بھی عذاب سے نجات نہیں پائیں گے۔
" ان مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کبھی فتنہ میں نہیں ڈالے گا " کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان اپنے جس ایمانی استقلال وعزیمت اور اسلامی شجاعت وبہادری کا ثبوت دیں گے اس کا انعام ان کو یہ ملے گا کہ اللہ تعالیٰ ان کو کبھی بھی کسی آفت وبلا میں نہیں ڈالے گا اور نہ جان وخون کی کسی آزمائش سے دوچار کرے گا۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو کبھی بھی عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا پس یہ اس بات کی بشارت ہے کہ ان لوگوں کا خاتمہ بخیر ہوگا۔
" قسطنطنیہ" کے بارے میں زیادہ مشہور اور صحیح قول یہ ہے کہ اصل میں یہ لفظ " قسطنطینہ" ہے لیکن بعض حضرات نے قسطنطینیہ کو زیادہ صحیح کہا ہے چنانچہ مشکوۃ کے اکثر نسخوں میں یہ لفظ اسی طرح ہے اور بعض نسخوں میں یہ لفظ اس طرح منقول ہے کہ آخری حرف ی پر تشدید نہیں ہے، بہرحال اردو میں یہ لفظ " قسطنطنیہ" لکھا پڑھا جاتا ہے۔
قسطنطنیہ تاریخ کا ایک مشہور شہر ہے جو اپنے زمانہ میں رومیوں کا دارالسلطنت تھا اور ان کے سب سے بڑے شہروں میں ایک بڑا شہر مانا جاتا تھا ، یہ شہر قسطنطین بادشاہ کی طرف منسوب ہے جس نے اس کو ٣٣٠ء میں بسایا اور رومی سلطنت کا پایہ تخت قرار پایا ۔ اب اس شہر کو جو آبنائے فاسفورس کے کنارے واقع ہے استنبول کہا جاتا ہے اور ترکی کی مملکت میں شامل ہے ترمذی نے وضاحت کی ہے کہ یہ شہر صحابہ کے زمانہ میں فتح ہو گیا تھا اور تاریخی روایات کے مطابق دوسری مرتبہ یہ شہر ١٤٥٣ء میں عثمانی ترکوں کے ذریعے فتح ہوا اور اب تک اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہے لیکن اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور پھر آخری زمانہ میں جب کہ قیامت قریب ہوگی ، مسلمان اس کو فتح کر لیں گے اور اسی زمانہ میں کانے دجال کا ظہور ہوگا۔
فاذا جاء الشام (جب مسلمان شام پہنچیں گے) میں " شام" سے مراد " قدس" ہے جس کو " بیت المقدس" کہا جاتا ہے چنانچہ بعض روایتوں میں اس کی تصریح بھی ہے اور اس وقت بیت المقدس ملک شام ہی کی حدود میں تھا اب یہ فلسطین میں ہے جو ایک مستقل ملک ہے۔
" اور مسلمانوں کی امامت کریں گے" کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت نماز تیار ہوگی اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام تمام مسلمانوں کو نماز پڑھائیں گے اور ان مسلمانوں میں حضرت امام مہدی بھی ہوں گے۔ لیکن ایک روایت میں یہ ہے کہ اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام امامت کرنے کے لئے حضرت امام مہدی کو آگے بڑھائیں گے اور ان سے فرمائیں گے کہ اس نماز کی اقامت چونکہ تمہاری امامت کے لئے کہی گئی ہے اس لئے تم ہی نماز پڑھاؤ اس بات سے حضرت عیسی علیہ السلام کا مقصود اس طرف اشارہ کرنا بھی ہوگا کہ اب مسلمانوں کے امیر وامام چونکہ تم ہو اس لئے مجھے بھی تمہاری اتباع کرنا چاہئے ، نہ کہ تم میری اتباع کرو گے، میں مستقل طور پر امام وامیر بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں بلکہ میرا آنا صرف تمہاری مدد ومعاونت اور تمہاری تائید وتوثیق کے لئے ہے۔ چنانچہ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ اس نماز کی امامت فرمائیں گے ۔ لیکن اس کے بعد نماز کی امامت برابر حضرت عیسی علیہ السلام فرمائیں گے۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ فامہم (اور مسلمانوں کی امامت کریں گے) تو یہ تغلیبا ارشاد فرمایا گیا ہے یعنی بعد میں چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام ہی مسلمانوں کو نماز پڑھایا کریں گے ، پس اس اعتبار سے اس وقت کی نماز کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی امامت کریں گے۔ یا یہ کہ امامت کریں گے" کے مجازی معنی مراد ہیں ۔ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام اس وقت مسلمانوں کے امام حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کو امامت کے لئے کہیں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں