مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ جنگ کرنے کا بیان ۔ حدیث 1359

وہ چھ چیزیں جن کا قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہونا ضروری ہے

راوی:

وعن عوف بن مالك قال أتيت النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك وهو في قبة من أدم فقال اعدد ستا بين يدي الساعة موتي ثم فتح بيت المقدس ثم موتان يأخذ فيكم كقعاص الغنم ثم استفاضة المال حتى يعطى الرجل مائة دينار فيظل ساخطا ثم فتنة لا يبقى بيت من العرب إلا دخلته ثم هدنة تكون بينكم وبين بني الأصفر فيغدرون فيأتونكم تحت ثمانين غاية تحت كل غاية اثنا عشر ألفا

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے دوران ایک دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چمڑے کے خیمے میں تشریف رکھتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم قیامت آنے سے پہلے چھ چیزوں کو شمار کرو یعنی ان چھ چیزوں کو قیامت کی علامتوں سے جانو کہ قیامت آنے سے پہلے یہ چھ چیزیں ضرور واقع ہوں گی ایک تو میری موت کہ جب تک میں تمہارے درمیان موجود ہوں قیامت نہیں آئے گی دوسرے بیت المقدس کا فتح ہونا یعنی جب تک بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں فتح نہیں ہو جائے گا قیامت نہیں آئے گی۔ تیسرے عام وباء جو تم میں بکریوں کی بیماری کی طرح پھیلے گی ، چوتھے لوگوں کے پاس مال ودولت کا اس قدر زیادہ ہونا کہ اگر ایک آدمی کو سو دینار بھی دئیے جائیں گے تو ان کو حقیر وکمتر جانے گا اور اس پر ناراض ہوگا یعنی مال ودولت کی اس قدر ریل پیل ہوگی کہ کسی کی نظر میں بڑی سے بڑی رقم کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیش گوئی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب کہ مسلمانوں میں مال ودولت کی زبردست ریل پیل ہو گئی تھی۔ پانچویں فتنے اور آپس کی مخاصمت ومخالفت کا اس طرح پھوٹ پڑنا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہیں بچے گا جس میں اس فتنے کے برے اثرات نہ پہنچیں، (علماء نے لکھا ہے کہ اس پیش گوئی کا مصداق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سانحہ شہادت ہے یا فتنہ سے مراد ہر وہ فتنہ اور برائی ہے جس کا ظہور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہوا) اور چھٹے صلح جو تمہارے اور رومیوں کے درمیان ہوگی، پھر رومی عہد شکنی کریں گے اور تمہارے مقابلے کے اسی نشانوں کے تحت آئیں گے جن میں سے ہر نشان کے ماتحت بارہ ہزار آدمی ہوں گے۔ (بخاری)

تشریح
" بیت المقدس" میں مقدس کا لفظ میم کے زبر، قاف کے جزم اور دال کے زیر کے ساتھ ، مجلس کے وزن پر مقدس ہے لیکن مشکوۃ کے ایک نسخے میں یہ لفظ میم کے پیش ، قاف کے زبر اور دال کی تشدید کے ساتھ معظم کے وزن پر مقدس منقول ہے۔
'قعاص" مویشیوں کی ایک بیماری کو کہتے ہیں جو عام طور سے مویشی کے سینے میں ہوتی ہے اور اس کو فورا ہلاک کر دیتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں جس عام وباء کی پیش گوئی فرمائی اور اس کو بکریوں کی بیماری یعنی قعاص سے تشبیہ دی ، اس سے مراد طاعون کی وہ وبا ہے جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں پیدا ہوئی اور اس کی وجہ سے صرف تین دن کے اندر ستر ہزار آدمی ہلاک ہوئے ، اس وقت مسلمانوں کی فوجی چھاؤ نی عمو اس میں تھی جو بیت المقدس کے قریب واقع ایک جگہ ہے ، اسی مناسبت سے اس وباء کو طاعون عمو اس کہا جاتا ہے، یہ پہلا طاعون تھا جو اسلام کے زمانہ میں پھوٹا اور اس کے سبب اتنا سخت جانی نقصان ہوا۔
" بنی الاصفر" رومیوں کو کہا جاتا تھا کیونکہ یہ لوگ جس نسل سے تعلق رکھتے تھے اس کے مورث اعلیٰ روم بن عیص بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کا رنگ زرد و مائل بسفیدی تھا اور یہی جسمانی رنگت عام طور سے پوری قوم میں پائی جاتی تھی۔
" غایۃ " اس نشان یا جھنڈے کو کہتے ہیں جو فوجی سرداروں کے ساتھ ان کے دستوں اور لشکروں کی علامت کے طور پر ہوتا ہے اور بعض روایتوں میں یہ لفظ ی کے بجائے ب کے ساتھ یعنی غابۃ منقول ہے جس کے معنی جنگل اور درختوں کے جھنڈ کے ہیں اس صورت میں کہا جائے گا کہ نشان اور جھنڈوں کی کثرت کی وجہ سے اس لشکر کو درختوں کے جھنڈ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور لشکر والوں کی تعداد ذکر کرنے کا مقصد لاؤ لشکر کی زیادتی بیان کرنا ہے

یہ حدیث شیئر کریں