مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ جنگ کرنے کا بیان ۔ حدیث 1358

فتح روم وفارس کی پیش گوئی

راوی:

وعن نافع بن عتبة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تغزون جزيرة العرب فيفتحها الله ثم فارس فيفتحها الله ثم تغزون الروم فيفتحها الله ثم تغزون الدجال فيفتحه الله . رواه مسلم

حضرت نافع بن عتبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم لوگ میرے بعد جزیرۃ العرب سے جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے ہاتھوں فتح کرائے گا پھر تم فارس کی مملکت سے جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے ہاتھوں فتح کرائے گا پھر تم روم کی مملکت سے جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے ہاتھوں فتح کرائے اور پھر آخری زمانہ میں تم دجال سے جنگ کرو گے اور اللہ اس پر تمہیں فتح عطا فرمائے گا۔ (مسلم)

تشریح
عالم عرب کا وہ خطہ جس کو جزیرۃ العرب سے تعبیر کیا جاتا ہے ، قدیم جغرافیہ دانوں کے مطابق نجد حجاز جس کے دو مقدس شہر مکہ اور مدینہ ہیں یمامہ، یمن اور عروض پر مشتمل ہے اس خطہ کے جنوب میں بحر عرب، مشرق میں خلیج عربی اور خلیج یمان اور مغرب میں بحراحمر ہے ، اس کے شمال میں دریائے فرات اس طرح بہتا ہے اس خطے کے اس تنہا شمالی خشکی کے سرے کو بہت حد تک کاٹ دیتا ہے اور اس وجہ سے یہ خطہ گویا مجازا جزیرۃ العرب کہلاتا ہے ورنہ اصل کے اعتبار سے یہ خطہ جزیرہ نمائے عرب سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ویسے اہل عرب جزیرہ نما کو بھی توسعا جزیرہ کہہ دیا کرتے ہیں۔
" جزیرۃ العرب سے جنگ کرو گے " کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت میری زندگی میں جزیرۃ العرب کے جو علاقے اسلام کی روشنی سے محروم رہ گئے ہیں۔ میرے بعد ان کی تاریکی بھی ختم ہو جائے گی، کچھ علاقے تو تبلیغ واشاعت اسلام کے ذریعے کفر کے اندھیرے سے نکل آئیں گے اور باقی علاقے کے لوگوں سے تم جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے ذریعے فتح پاؤ گے اس طرح ہر چار طرف اسلام کا جھنڈا سر بلند ہو جائے گا اور پورے جزیرۃ العرب میں کوئی ایک کافر بھی باقی نہیں بچے گا۔
" دجال سے جنگ کرو گے الخ" کا مطلب یہ ہے کہ دجال جب ظاہر ہوگا تو اپنی طلسماتی طاقت اور مکر و فریب کے ذریعے بڑی اودھم مچائے گا اور کچھ ملکوں اور علاقوں پر قابو پا لے گا لیکن جب تم اس کے مقابلے پر نکل کھڑے ہو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو مقہور ومغلوب کر دے گا اور جو ملک وعلاقہ اس کے قبضے میں چلا گیا ہوگا وہ دوبارہ تسلط وقبضہ میں آ جائے گا، نیز وہ دجال حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں ہلاک ہو جائے گا جو مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے اتریں گے۔ واضح رہے کہ اس ارشاد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطاب تو صحابہ سے تھا مگر اصل روئے سخن امت کی طرف تھا۔

یہ حدیث شیئر کریں