مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ جنگ کرنے کا بیان ۔ حدیث 1350

کچھ وہ چیزیں جن کا قیامت آنے سے پہلے وقوع ہونا ضروری ہے

راوی:

عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قا ل لا تقوم الساعة حتى تقتتل فئتان عظيمتان تكون بينهما مقتلة عظيمة دعواهما واحدة وحتى يبعث دجالون كذابون قريب من ثلاثين كلهم يزعم أنه رسول الله وحتى يقبض العلم وتكثر الزلازل ويتقارب الزمان ويظهر الفتن ويكثر الهرج وهو القتل وحتى يكثر فيكم المال فيفيض حتى يهم رب المال من يقبل صدقته وحتى يعرضه فيقول الذي يعرضه عليه لا أرب لي به وحتى يتطاول الناس في البنيان وحتى يمر الرجل بقبر الرجل فيقول يا ليتني مكانه وحتى تطلع الشمس من مغربها فإذا طلعت ورآها الناس آمنوا أجمعون فذلك حين ( لا ينفع نفسا إيمانها لم تكن آمنت من قبل أو كسبت في إيمانها خيرا )
ولتقومن الساعة وقد نشر الرجلان ثوبهما بينهما فلا يتبايعانه ولا يطويانه ولتقومن الساعة وقد انصرف الرجل بلبن لقحته فلا يطعمه ولتقومن الساعة وهو يليط حوضه فلا يسقي فيه ولتقومن الساعة وقد رفع أكلته إلى فيه فلا يطعمها

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دو بڑے گروہ آپس میں نہ لڑیں گے ، ان دونوں گروہوں کے درمیان زبردست قتل وقتال ہوگا۔ اور دونوں کا ایک ہی دعویٰ ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک بڑے زبردست مکار، فریبی اور فسادی لوگ پیدا نہ ہو جائیں گے جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ بولیں گے ان کی تعداد تیس کے قریب ہوگی اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک علم نہ اٹھا لیا جائے گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی ، زمانہ قریب نہ ہو جائے گا فتنوں کا ظہور نہیں ہونے لگے گا اور ہرج یعنی قتل وقتال اور لوٹ مار کے واقعات میں اضافہ نہ ہو جائے گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ تمہارے پاس مال ودولت کی اتنی کثرت نہیں ہو جائے گی کہ مالدار شخص خیرات لینے والے کی وجہ سے قلق اور پریشانی میں مبتلا ہو جائے ، یہاں تک کہ وہ مالدار ، جس شخص کو صدقہ وخیرات دینے والا سمجھ کر اس کے سامنے صدقہ و خیرات کا مال پیش کرے گا، وہ غنائے قلبی کے سبب یا خود مالدار ہونے کی وجہ سے یہ کہے گا کہ مجھے تمہارے اس صدقہ خیرات کے مال کی ضرورت وحاجت نہیں ہے۔ اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ لوگ وسیع اور لمبی چوڑی عمارتوں کے بنانے پر فخر نہ کرنے لگیں گے اور جب تک کہ آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرتا ہوا یہ نہ کہنے لگے کہ کاش میں اس کی جگہ ہوتا اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں گی جب کہ تک کہ آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع نہ ہوگا۔ اور لوگ اس کی طرف دیکھیں تو سب ایمان لے آئیں گے اور آخرت کا امر ظاہر ہو جائے گا پس یہ وقت وہ ہوگا جب کسی بھی ایسے شخص کو اس کا ایمان لانا نفع نہ دے گا جس نے اس دن سے پہلے ایمان قبول نہیں کیا ہوگا اور نہ کسی شخص کو اس وقت اپنے ایمان کی حالت میں نیک کام کرنا فائدہ پہنچائے گا اگر اس نے اس دن سے پہلے نیک کام نہیں کیا ہوگا۔ اور اس میں شک نہیں کہ قیامت اس طرح قائم ہوگی یعنی پہلا صور کہ جو قیامت کی ابتداء ہوگا اس طرح اچانک پھونکا جائے گا کہ دو شخصوں نے اپنا کپڑا خرید وفروخت کے لئے کھول رکھا ہوگا اور وہ نہ اس کی خرید وفروخرت کر چکے ہوں گے اور نہ اس کو لپیٹ کر رکھ سکے ہوں گے کہ اسی حالت میں قیامت آ جائے گی۔ اور بلاشبہ قیامت اس حال میں قائم ہوگی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کے دودھ کے ساتھ واپس آیا ہوگا یعنی اونٹنی کا دودھ لے کر اپنے گھر آیا ہوگا اور اس دودھ کو پینے نہ پایا ہوگا کہ قیامت آ جائے گی اور بلاشبہ قیامت اس طرح قائم ہوگی کہ ایک شخص اپنے حوض کو لیپتا اور پوتتا ہوگا یعنی اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لئے کوئی کنڈ وغیرہ بناتا یا اس کو درست کرتا ہوگا اور وہ اپنے جانوروں کو اس حوض سے پانی نہ پلانے پایا ہوگا کہ قیامت آ جائے گی اور بلاشبہ قیامت اس طرح قائم ہوگی کہ ایک شخص نے منہ میں رکھنے کے لئے لقمہ اٹھایا ہوگا اور وہ اس لقمہ کو کھانے نہ پایا ہوگا کہ قیامت آ جائے گی۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
" اور دونوں کا ایک ہی دعویٰ ہوگا " کا مطلب یہ ہے کہ آپس میں لڑنے والے وہ دونوں گروہ دین اسلام کا دعویٰ رکھنے والے ہوں گے اور ان دونوں گروہوں سے تعلق رکھنے والا ہر شخص مسلمان ہوگا یا یہ کہ وہ دونوں گروہ جو مسلمان ہوں گے حق پر دعویٰ کریں گے اور ان میں سے ہر ایک یہ گمان عقیدہ رکھے گا کہ دین و دیانت اور اصول کے اعتبار سے بالکل صحیح راستہ وہی اختیار کئے ہوئے ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں جن دو گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تابعدار ساتھی مراد ہیں۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا کہ اخواننا بغوا علینا (یعنی وہ لوگ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کر دی ہے) اسی طرح ایک روایت میں یہ بھی منقول ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کا ایک شخص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ایک آدمی کو قیدی بنا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لایا ، ایک دوسرے شخص نے اس قیدی کو دیکھ کر اس کی حالت پر تاسف کا اظہار کیا اور کہنے لگا کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ مسلمان پختہ اسلام کا حامل تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو ناگوار کے ساتھ فرمایا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ یہ شخص تو اب بھی مسلمان ہے۔ پس یہ حدیث خوارج کے قول کو باطل ثابت کرتی ہے جو کہتے ہیں کہ دونوں جماعتیں یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تابعدار بھی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تابعدار بھی کافر ہیں۔ اسی طرح اس حدیث کے ذریعے روافض کے اس قول کا باطل ہونا ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخالف کافر ہیں۔
" ان کی تعداد تیس کے قریب ہوگی" اس طرح کی ایک حدیث گزشتہ باب میں گزری ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ان کی تعداد تیس ہوگی اور یہاں ان کی تعداد تیس کے قریب فرمائی ہے تو ہو سکتا ہے کہ پہلی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعین طور پر ذکر تو تیس کی تعداد کا فرمایا لیکن مراد یہی ہو کہ ان کی تعداد تیس کے قریب ہوگی یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پیچھے جو حدیث گزری ہے وہ یہاں نقل کی جانے والی حدیث کے بعد کے زمانے کی ہے۔ گویا اس بارے میں پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جو وحی آئی تھی اور اس سے بطریق اجمال وابہام جو بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرما دی کہ ان کی تعداد تیس کے قریب ہوگی لیکن پھر بعد میں دوسری وحی کے ذریعے اس تعداد کو مقید و متعین فرمایا دیا گیا۔ چنانچہ اس وحی کے آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو حدیث ارشاد فرمائی اس میں فرمایا کہ ان کی تعداد تیس ہوگی۔ اسی طرح تیس کی تعداد والی یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس کو طبرانی نے حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ لاتقوم الساعۃ حتی یخرج سبعون کذابا۔ کیونکہ حضرت ابن عمرو کی روایت کا مقصد محض ان جھوٹوں کی کثرت کو ظاہر کرنا ہے ، ان کی کسی خاص تعداد کا بیان نہیں۔ یا یہ کہ ستر میں سے تیس تو وہ ہوں گے جو نبوت کا دعویٰ کریں گے اور باقی جھوٹے وہ ہوں گے جو نبوت کا دعویٰ نہیں کریں گے اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ستر کی جو تعداد ذکر فرمائی گئی ہے وہ تیس کے علاوہ اور اس طرح سب کی مجموعی تعداد سو مراد ہو۔
" جب تک علم نہ اٹھا لیا جائے گا " میں " علم " سے مراد وہ خاص علم ہے جو شریعت میں نفع دینے والا علم کہلاتا ہے اور وہ قرآن وحدیث اور ان کے متعلقات کا علم ہے اور جس کو دین کا علم بھی کہا جا سکتا ہے، نیز علم کے اٹھ جانے سے مراد اہل سنت والجماعت کے علماء کا اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے ۔ چنانچہ جب علم کے حامل اور علم پہنچانے والے ہی اس دنیا سے اٹھ جائیں گے تو گویا علم ہی اس دنیا سے اٹھ جائے گا ۔، پس آخری زمانہ کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس وقت مخلص وبا عمل اور حقیقی عالم تو رخصت ہو جائیں گے اور دنیا میں جاہل وبے علم اور بدعتی لوگوں کی کثرت ہو جائے گی۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ایک عالم کی موت عالم کی موت ہے۔
" جب تک کہ زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی" میں زلزلوں سے مراد یا تو حسی یعنی واقعی زلزلے ہیں کہ زمین کا ہلنا اور بھونچال کا آنا کثرت سے ہو جائے گا یا یہاں زلزلے کے لغوی معنی مراد ہیں کہ طرح طرح کی آفتیں وبلائیں نازل ہوں گی۔ اور نت نئے حادثات انسان، جان ومال کو نقصان پہنچانے لگیں گے۔
" جب تک زمانہ قریب نہ ہو جائے گا " سے حضرت امام مہدی کے مبارک زمانہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے چونکہ اس وقت تمام روئے زمین میں امن وامان اور خوشی ومسرت کا گہوارہ بن جائے گا اور لوگوں کی زندگی نہایت اطمینان وسکون اور سرور وشادمانی کے ساتھ گزرے گی اس لئے وقت کی رفتار تیز تر معلوم ہوگی اور زمانہ بہت مختصر معلوم ہونے لگے گا جیسا کہ عیش و راحت کا زمانہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو بہت مختصر معلوم ہوتا ہے اور مصیبت وسختی کا زمانہ کتنا ہی مختصر کیوں ہو نہ بہت طویل معلوم ہوتا ہے۔
" ویکثر الہرج وہو القتل" میں وہو القتل کے الفاظ کسی راوی کے ہیں جس کے ذریعے انہوں نے لفظ ہرج کی وضاحت کی ہے کہ اس لفظ سے مراد قتل وقتال کا واقع ہونا ہے جو فتنے کے سبب وجود میں آئے گا۔
حتی یہم رب المال کے بارے میں کئی اقوال ہیں ایک تو یہ کہ لفظ " یہم " کو حرف یا کے پیش اور ہ کے زیر کے ساتھ پڑھا جائے اور رب کو " یہم" کا مفعول ہونے کی بنا پر منصوب قرار دیا جائے، اس صورت میں یہم کا فاعل لفظ فقدان کو قرار دیں گے۔ من یقبل الصدقت کا مضاف محذوف ہے۔ یہ قول زیادہ مشہور ہے اور اس کے مطابق پوری عبارت کے معنی یہ ہوں گے کہ اس وقت جب کہ قیامت کا زمانہ قریب ہوگا لوگوں کے پاس مال ودولت اور روپیہ پیسہ کی اس طرح فراوانی اور کثرت ہو جائے گی کہ صدقہ وخیرات کا مال لینے والا ، صدقہ وخیرات کرنے والے کو ڈھونڈھے نہیں ملیں گے۔ یہاں تک کہ اس شخص کا ڈھونڈھنا سخت پریشانی اور قلق میں مبتلا کرے گا جو صدقہ وخیرات کے مال کو قبول کر لے یعنی مالدار شخص کسی مفلس وفقیر شخص ڈھونڈھتا پھرے گا، تاکہ زکوۃ وصدقہ کا مال اسے دے سکے مگر پورے معاشرہ میں ضرورت مند ومحتاج لوگوں کی کمی کے باعث مشکل ہی سے کوئی فقیر ومفلس اس کو مل پائے گا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ یہم کو لفظ ہم (بمعنی قصد و ارادہ ) سے مشتق قرار دے کر حرف ی کو زبر کے ساتھ اور ہ کو پیش کے ساتھ پڑھا جائے نیز رب کو مرفوع قرار دیا جائے اس صورت میں رب المال ، یہم کا فاعل ہوگا اور من یقبل کا مفعول اس طرح عبارت کے معنی یہ ہوں گے کہ اس وقت جب کہ قیامت کا زمانہ قریب ہوگا تمہارے پاس مال ودولت کی بہت زیادتی ہو جائے گی یہاں تک کہ ایک مالدار آدمی کسی ایسے شخص کی تلاش کا قصد کرے گا اور اس کو بہت ڈھونڈے گا جو اس کے صدقہ وخیرات کا مال لے لے۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ لفظ یہم فعل متعدی ہے جس کے معنی غمگین کرنے کے آتے ہیں اس صورت میں حرف ی کو زبر کے ساتھ اور ہ کے پیش کے ساتھ پڑھا جائے اور رب کو منصوب قرار دیا جائے اس طرح اس عبارت کے معنی یہ ہوں گے کہ کسی ایسے فقیر ومفلس کا پایا جانا کہ جو صدقہ وخیرات کا مال قبول کرے ، مالدار شخص کو غمگین کرے گا۔
" جب تک کہ عمارتوں کے بنانے پر فخر نہ کرنے لگیں" یعنی لوگ محض رہائشی ضروریات کی تکمیل کے لئے یا کسی نیک مقصد کی خاطر لمبی چوڑی عمارتیں نہیں بنائیں گے بلکہ وہ فلک بوس اور محل نما عمارتیں محض اپنی شان وشوکت اور اپنی امارت کو ظاہر کرنے اور فخر ومباہات کی خاطر بنائیں گے جیسا کہ اس زمانہ میں ہو رہا ہے کہ مالدار اور رئیس لوگ بڑے بڑے مکانات بنانا فخر کی بات سمجھتے ہیں اور بڑی بڑی بلڈنگیں کھڑی کر کے اپنی جھوٹی شان وشوکت ظاہر کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ اس مقصد کے لئے عبادت گاہوں اور رفاہی عمارتوں اور قبرستانوں تک کو مسمار اور زمین دوز کرنے سے گریز نہیں کرتے اور ان کی جگہ پر اپنی عشرت گاہیں ، سیر وتفریح کے مرکز اور باغ باغیچے بناتے ہیں۔
" اور جب تک آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرتا ہوا الخ" کا مطلب یہ ہے کہ یا تو دینی معاملات میں غم وفکر کی کثرت کی وجہ سے یا آفات اور بلاؤں کی زیادتی کی وجہ سے ، قبروں کو دیکھ کر احساس دل اور آخرت میں یقین رکھنے والے لوگ یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ کاش ہم اس دنیا میں نہ ہوتے اور ان قبروں میں پڑے ہوتے تاکہ ہمیں ان آفات اور بلاؤں کو دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔
" جب تک کہ آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع نہ ہوگا " اس بات (کہ سورج مغرب کی طرف سے نکلے گا) کی وضاحت انشاء اللہ آگے باب العلامات بین یدی الساعۃ میں ذکر ہوگی، اس موقع پر تو اتنا بتا دینا کافی ہے کہ جس دن آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا اس دن سے توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا، اس کے بعد سے کسی کی بھی توبہ قبول نہیں ہوگی جیسا کہ خود حدیث میں فرمایا گیا ہے۔
" اس وقت اس کا ایمان لانا نفع نہ دے گا الخ" بعض حضرات نے اس عبارت کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ آفتاب جب مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا تو اس وقت توبہ کا دروزہ بند ہو جائے گا پس اس وقت یا اس کے بعد کسی شخص کا ایمان لانا کہ جو اس دن سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا اور کسی شخص کا نیکی کرنا کہ جس نے اس دن سے پہلے نیکی نہیں کی تھی، کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا واضح رہے کہ یہاں نیکی سے مراد توبہ ہے، یعنی جس طرح اس دن اس شخص کا ایمان لانا فائدہ مند نہیں ہوگا اس طرح اس دن اس کا گناہوں سے توبہ کرنا بھی فائدہ مند نہیں ہوگا اس سے معلوم ہوا کہ آیت (او کسبت فی ایمانہا خیرا) میں لفظ او تنویع کے لئے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گویا یہ فرمایا کہ اس دن نہ تو شرک سے توبہ کرنا کار آمد ہوگا اور نہ گناہوں سے توبہ کرنا کچھ فائدہ پہنچائے گا۔
" کہ دو شخصوں نے اپنا کپڑا کھول رکھا ہوگا " میں ان دونوں کی طرف کپڑے کی اضافت اس اعتبار سے ہے کہ ان میں سے ایک شخص یعنی فروخت کرنے والا تو اس کپڑے کے مالک ہی ہوتا اور جو دوسرا شخص یعنی خریدار ہوگا وہ چونکہ اس کپڑے کا طالب اور لینے والا ہوگا لہٰذا اس اعتبار سے کپڑے کی اضافت اس کی طرف بھی کردی گئی ہے۔
حدیث کے آخری اجزاء کا ماحص گویا یہ واضح کرنا ہے کہ قیامت اچانک آئے گی، تمام لوگ اپنے کاروبار میں مشغول ومنہمک ہوں گے کہ یکایک قیامت کا پنجہ سب کو آ دبوچے گا، کسی کو اتنی مہلت بھی نہیں ملے گی کہ اس نے کھانے کا جو لقمہ ہاتھ میں رکھ لیا ہے اس کو منہ ہی میں رکھ لے ۔ واضح رہے کہ قیامت کے اچانک آنے سے مراد پہلے صورت کا اچانک پھونکا جانا ہے، جس کی آواز سے سب لوگ مر جائیں گے، لیکن اس سے پہلے قیامت کی تمام علامتیں دیکھیں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں