مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 1348

چند فتنوں کا ذکر

راوی:

وعن ابن المسيب قال وقعت الفتنة الأولى يعني مقتل عثمان فلم يبق من أصحاب بدر أحد ثم وقعت الفتنة الثانية يعني الحرة فلم يبق من أصحاب الحديبية أحد ثم وقعت الفتنة الثالثة فلم ترتفع وبالناس طباخ . رواه البخاري .

حضرت ابن مسیب سے جو جلیل القدر تابعین میں سے تھے اور جنہوں نے چاروں خلفائے راشدین کا زمانہ پایا تھا روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ جب پہلا فتنہ کہ (کہ جس سے پہلے اسلام میں کوئی فتنہ ظاہر نہیں ہوا) واقع ہوا یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تو غزوہ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہا ، پھر جب دوسرا فتنہ واقع ہوا یعنی حرہ کا واقعہ پیش آیا تو ان صحابہ میں سے کوئی باقی نہیں رہا جو صلح حدیبیہ یعنی بیعت الرضوان میں شریک ہوئے تھے پھر جب تیسرا فتنہ واقع ہوا تو اس کا خاتمہ اس حالت میں نہیں ہوا تھا کہ لوگوں میں قوت اور فربہی باقی رہی ہو۔ (بخاری)

تشریح
" یعنی" کا لفظ اس راوی کا ہے جس نے اس روایت کو حضرت ابن مسیب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے گویا اس راوی نے اس لفظ کے ذریعے وضاحت کی کہ حضرت ابن مسیب رضی اللہ عنہ نے جس فتنہ کو ذکر کیا اس سے ان کی مراد کس فتنہ سے تھی ۔ فلم یبق الخ کے الفاظ ابن مسیب کے ہیں ، جن سے مراد یہ ہے کہ اصحاب بدر اس سے اللہ کو پیارے ہونے لگے تھے جب کہ پہلا فتنہ یعنی ٣٥ھ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا تھا اور پھر جب ٣٦ھ میں دوسرا فتنہ یعنی حرہ کی جنگ اواعہ پیش آیا تو اس تک کوئی بھی بدر صحابی باقی نہیں رہا تھا ۔ پس مذکورہ الفاظ کی مراد یہ نہیں ہے کہ اصحاب بدر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے فتنہ میں مارے گئے تھے۔ اسی وضاحت کو بعد کے جملے میں بھی ان الفاظ پر منطبق کرنا چاہئے اور حاصل یہ کہ غزوہ بدر میں شرکت کی برکت کے سبب اللہ تعالیٰ نے بدری صحابہ کو فتنے سے محفوظ رکھا اور انہوں نے فتنے کا دوبارہ منہ نہیں دیکھا۔ اصحاب بدر میں سب سے آخر میں جن صحابی کا انتقال ہوا ہے وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ہیں جو واقعہ حرہ سے چند سال پہلے انتقال کر گئے تھے۔
" طباخ" کے معنی ہیں مضبوطی، قوت، موٹاپا۔ اور کبھی یہ لفظ اپنے برعکس معنی کے لئے بھی مستعمل ہوتا ہے، مثلا کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کو طباخ نہیں ہے یعنی اس کو عقل نہیں ہے، اس میں کیر و بھلائی نہیں ہے۔ حدیث کے اس آخری جملے سے مراد یہ ہے کہ جب وہ فتنہ ظاہر ہوا تو اس وقت لوگوں میں یعنی تابعین میں کوئی صحابی باقی نہیں رہا تھا۔ بعض حواشی میں لکھا ہے کہ ابن مسیب رضی اللہ عنہ نے جس تیسرے فتنہ کی طرف اشارہ کیا۔ اس سے ابن حمزہ خارجی کا فتنہ خروج مراد ہے جو مروان بن محمد بن الحکم کے زمانے میں پیش آیا تھا۔ اور کرمانی نے یہ لکھا ہے کہ اس تیسرے فتنہ سے مراد عبداللہ بن زبیر اور اہل مکہ کے خلاف حجاج بن یوسف کی وہ جنگ ہے جو عبدالملک بن مروان کے زمانے میں ٧٤ھ میں ہوئی تھی اور جس کے نتیجے میں کعبہ اقدس کی بھی تخریب ہوئی تھی۔ لیکن یہ مراد اس صوت میں صحیح نہیں قرار پا سکتی جب کہ حدیث کے آخری جملے کے مطابق یہ کہا جائے کہ اس فتنے کے وقت دنیا میں کوئی صحابی موجود نہیں تھا کیونکہ حجاج بن یوسف کی جنگ کے وقت تو صحابہ کی اچھی خاصی تعداد بقید حیات تھی۔ لہٰذا پہلی مراد ہی صحیح ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں