جنگ صفین
راوی:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے ملک شام کے گورنر مقرر ہوئے تھے۔ ان کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے خاندانی اور قرابتی تعلق بھی تھا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوسرے ملکوں اور شہروں میں خلافت عثمانی کے مقررہ گورنروں اور عاملوں کو سبکدوش کر کے اپنے معتمد لوگوں کو ان کی جگہوں پر بھیجا تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی معزولی کا فرمان بھی صادر ہوا اور ان کا عہدہ سنبھالنے کے لئے سہل بن حنیف کو روانہ فرمایا لیکن سہل بن حنیف کو راستے ہی سے واپس ہونا پڑا اور وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے شام کی گورنری کا عہدہ سنبھالنے میں ناکام رہے۔ اس طرح یہ بات سامنے آ گئی کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ بنو امیہ کے معتمد ہونے کی حیثیت سے خون عثمان کے قصاص کے مسئلہ پر نہایت مضبوطی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخالف ہیں ، اس موقع پر پھر یہودیوں نے سبائیوں کی صورت میں سازش کا جال پھیلایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا لشکر نکلا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے چل پڑا پہلے دونوں لشکروں کے مقدمۃ الجیش کے درمیان مقابلہ ہوا اس کے بعد دونوں طرف کی پوری فوجیں میدان جنگ میں پہنچ کر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی فوج کی کمان کر رہے تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے سپہ سالار تھے، پھر بعض حضرات نے مصالحت کی کوشش شروع کی لیکن سازشیوں کا جال چونکہ دونوں طرف پھیلا ہوا تھا اس لئے یہ کوشش ناکام ہو گئی اس کے بعد مجبوراً لڑائی شروع ہو گئی ، تقریبا ایک مہینے تک تو جنگ کا رخ بالکل انفرادی رہا اور باقاعدہ جنگ سے گریز کیا جاتا رہا۔ اس کے بعد مہینے تک کے لئے یہ انفرادی لڑائی بھی معطل کر دی گئی اور اس عرصے میں مصالحت کی کوششیں پھر شروع ہو گئیں لیکن مصالحت کی یہ دوسری کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکی اور آخرکار یکم صفر٣٧ھ سے جنگ کا آغاز ہو گیا، اور ایک ہفتے سے زائد تک بڑی خوفناک جنگ ہوتی رہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج کا پلڑا بھاری تھا اور جنگ کے آخری دن وہ مرحلہ بھی آ گیا تھا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو پوری طرح شکست ہو جاتی لیکن عین موقع پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی نے فوری جنگ بند کر ادی۔ اس کے بعد فریقین نے یہ طے کر لیا کہ حکم کے ذریعے قرآن مجید کی روشنی میں صلح صفائی کر لی جائے۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ابوموسیٰ اشعری کو ثالث بنانے پر اتفاق ہو گیا۔ گو آگے چل کر بعض اسباب وعوامل کی بنا پر جس کی تفصیل بہت طویل ہے، یہ ثالثی کامیاب نہیں ہوئی اور حضرت علی و امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان اس آویزش و اختلاف کا سلسلہ ختم نہیں ہوا لیکن یہ بھیانک جنگ جو جنگ صفین کے نام سے مشہور ہوئی ۔ مزید تباہی وبربادی اور خونریزی پھیلائے بغیربند ہو گئی۔ اس جنگ نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا اور اسلام کی شوکت زبردست دھکا لگا بیان کیا جاتا ہے کہ اس باہمی محاذ آرائی کے دوران مجموعی طور پر ستر ہزار کے قریب مسلمان میدان جنگ میں کام آئے۔