مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 1344

شہادت عثمان رضی اللہ عنہ

راوی:

حدیث کی تشریح میں تین ایسے واقعات کا ذکر آیا ہے جو اسلامی تاریخ میں نہایت روح فرسا نتائج کے ساتھ یاد کئے جاتے ہیں اور جن کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گویا پہلے ہی اشارہ فرما دیا تھا، یہ تینوں واقعات ہیں شہادت عثمان، جنگ جمل، اور جنگ صفین ، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں واقعات پر مختصر انداز میں روشنی ڈالی جائے ۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے واقعہ اور اس کے پس منظر کو بیان کیا جاتا ہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام کے تیسرے خلیفہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد مسلمانوں کے امیر وحکمران بنے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت تک مسلمانوں کے عام دینی وسیاسی اور ملکی وملی معاملات ایک مستحکم خلافت کے تحت عمدگی وخوبی کے ساتھ چلتے رہے اور ان عوامل واسباب کو سر اٹھانے کا موقع نہیں ملا جو خلافت کے استحکام اور ملی نظم واتحاد کے خلاف کسی محاذ آرائی کا باعث بنتے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا ابتدائی نصف حصہ بھی اسی نہج پر استوار رہا لیکن اس کے بعد کچھ ایسے اندرونی عوامل واسباب پیدا ہو گئے اور اس کے ساتھ بعض ایسی بیرونی سازشیں حرکت میں آ گئیں جن سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا استحکام ڈانواں ڈول ہو گیا اور ملک وملت کے دینی وسیاسی معاملات پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جہاں بے شمار اوصاف ان زندگی میں مابہ الامتیاز حیثیت رکھتے وہاں ان میں ایک بڑا وصف علم ومروت ، چشم پوشی ودرگزر اور خاص طور اپنے عزیز واقا رب کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ بھی تھا، انہوں نے اخلاص نیت کے ساتھ اپنے ان عزیز واقا رب کو اونچے عہدوں اور مناصب پر فائز کیا جس کو وہ ان عہدوں کے لئے واقعۃً اور دیانۃً اہل اور مناسب جانتے تھے، نیز وہ چونکہ ذاتی طور پر بہت مالدار تھے اس لئے اپنے مال ودولت کے ذریعے اپنے عزیزوں کی خبر گیری رکھتے تھے اور ان کی مالی معاونت فرمایا کرتے تھے ادھر مسلمانوں کے ذہنی وفکری حالات میں بھی زمانہ کے تغیرات اور وسیع تر ماحول میں عالم خلط ملط کے اثرات سے کافی حد تک تبدیلی آ گئی تھی ، چنانچہ کچھ مسلمانوں میں اور خاص طور پر ان مسلمانوں میں جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے، اور جو قدیم قبائلی وعلاقائی عصبیت کی گرفت سے پوری طرح آزاد نہیں ہوئے تھے، یہ شکوک پیدا ہونے شروع ہو گئے کہ امیر المومنین اپنی خلافت کے ذریعے اپنے قبیلے اور اپنے خاندان کے لوگوں ہی کو منفعت پہنچا رہے ہیں۔ اگرچہ اس طرح کے لوگ ابھی بہت کم تھے اور عام لوگوں میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے کوئی بدگمانی اور شکایت پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن عین اسی وقت عبداللہ بن سبا نے اپنی مکر و سازش کا جال پھیلانے کا کام شروع کر دیا ، عبداللہ بن سبا شہر صنعاء کا رہنے والا ایک یہودی تھا اس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں یہ دیکھ کر کہ مسلمان ہی دنیا کی سب سے فاتح قوم بن گئی ہے اور اس قوم کو بہت زیادہ مال وحشمت حاصل ہے ، مدینہ میں آیا اور بظاہر مسلمان بن کر رہنے لگا، اس کا اصل مقصد محض دولت وحشمت کا حصول ہی نہیں تھا بلکہ وہ اپنے ذہن میں مسلمانوں کی طاقت کمزور کرنے اور اسلام کی شوکت وحشمت کو ختم کرنے کی سازش بھی پنہاں رکھتا تھا ، چنانچہ وہ مدینہ میں اپنی سازش کی تکمیل میں مصروف ہو گیا، وہاں جب کچھ کامیابی نہیں ہوئی تو بصرہ پہنچا۔
بصرہ میں اس نے مختلف مکر و فریب اور ترغیبات ولالچ کے ذریعے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور طرح طرح بد عقیدگیوں کا پر چار شروع کیا، جب بصرہ کے گورنر کو اس کے حالات اور اس کی اصل حقیقت کا علم ہوا اور انہوں نے باز پرس کی وہاں اپنے حامیوں کی ایک جماعت کا چھوڑ کر کوفہ آ گیا جہاں پہلے ہی سے ایک جماعت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے عامل کے خلاف تھی یہاں عبدللہ بن سباء کو اپنی سازش پھیلانے کا زیادہ موقع ملا اس کو ایک طرف تو اسلام سے مخالفت تھی دوسری طرف وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کوئی ذاتی عداوت وعناد بھی رکھتا تھا اور ان سے انتقام لینے کی خواہش رکھتا تھا کچھ دنوں کے بعد اس کو کوفہ بھی چھوڑنا پڑا اور پھر دمشق پہنچ گیا دمشق میں اس کی دال زیادہ نہ گلی اور جلد ہی اسے یہاں سے باہر شہر بدر ہونا چپڑا ، یہاں سے نکل کر وہ مصر پہنچا اور وہاں اس نے زیادہ ہوشیاری اور اطاعت کے ساتھ کام شروع کیا، اور ایک باقاعدہ خفیہ جماعت کی تنظیم کی چونکہ اہل بیت کی محبت اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تعلق کا دعویٰ بھی کرتا تھا لہٰذا اس فریب آویز دعویٰ کے ذریعے مصر میں اسے کامیابی حاصل ہوئی اور لوگوں نے اس کے گرد جمع ہونا شروع کر دیا یہاں بیٹھ کر اس نے اسلامی سلطنت کے ان تمام علاقوں سے رابطہ قائم کیا ، جہاں جہاں وہ گیا تھا اور اپنے کچھ حامیوں کی جماعت چھوڑ کر آیا تھا اپنے ان حامیوں کے ذریعے ایک طرف تو اس نے مختلف علاقوں سے اہل مدینہ کے پاس یہ شکایتیں پہنچوائیں کہ عثمان کے عامل ماموں اور گورنر اپنے اپنے علاقوں کے لوگوں پر سخت ظلم وستم کر رہے ہیں دوسری طرف اس نے عام مسلمانوں میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خویش پروری اور ان کے عاملوں اور گورنروں کے ظلم وستم کے فرضی واقعات کا پروپیگنڈہ کر کے خلافت عثمان کے خلاف ناراضگی اور شورش پیدا کر دی، جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس شورش کا علم ہوا تو انہوں نے صورت حال کی طرف توجہ دی اور اپنے عاملین اور مشیروں کو جمع کر کے مشورہ کیا، کچھ لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ جو افراد یہ شورش پھیلانے کے ذمہ دار ہیں ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کر دیا جائے اور مجرمین کے ساتھ کوئی رعایت روا نہ رکھی جائے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی مروت وبردباری کی وجہ سے اس مشورے کو قبول نہیں کیا اور یہ فرمایا کہ میں قرآن وحدیث کے حکم کے مطابق کسی شخص کو اس وقت تک قتل نہیں کر سکتا جب تک کہ علانیہ مرتد ہوتے نہ دیکھ لوں اور اس کا جرم ثابت نہ ہو جائے غرض معمولی تدابیر کے علاوہ سازشیوں کے مخالف کوئی سخت کار روائی نہیں ہوئی جس سے ان کے حوصلے اور بلند ہو گئے اور وہ نہایت زور وشور کے ساتھ اپنی تخریبی کار روائیوں میں مصروف رہے اور اکثر علاقوں خاص طور پر مصر میں شورش پسندوں کے گروہ کے گروہ تیار ہو گئے جن کو مدینہ دھاوا بولنے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کر دینے کی تربیت دی جانے لگی ۔
ادھر عبداللہ بن سبا کے لوگ مختلف علاقوں کے گورنروں وعاملوں کے خلاف جو فرضی شکایتیں اہل مدینہ کے پاس بھتیجے تھے ان کو اہل مدینہ صحیح سمجھ کر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان گورنروں اور عاملوں کی معزولی کا مطالبہ کرتے تھے، مگر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تفتیش وتحقیق سے چونکہ معلوم ہو جاتا تھا کہ تمام شکایتیں فرضی ہیں اس لئے وہ ان گورنروں اور عاملوں کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کرتے تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود مدینہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی حکومت کے خلاف بدگمانیوں اور شکایتوں کی ایک فضا بن گئی اور جا بجا خلیفہ وقت کی نسبت سر گوشیاں ہونا شروع ہو گئیں بلکہ لوگوں کی زبان پر علانیہ شکایتیں آنے لگیں، یہ وہ زمانہ تھا جب عبداللہ بن سبا کے ایجنٹ تمام ممالک اسلامیہ اور تمام بڑے شہروں اور قصبوں میں پہنچ چکے تھے اور ان کے حامیوں کے گروہ ہر جگہ پیدا ہو چکے تھے جب اس نے دیکھ لیا کہ اس کی سازش آخری مرحلوں میں پہنچ گئی ہے ، تمام علاقوں میں خلافت عثمان کے خلاف بدگمانیوں اور شکایتوں کا جال پھیلا دیا گیا ہے اور ہر جگہ میرے حامیوں کی خاصی تعداد جمع ہو گئی ہے تو اس نے ہر ہر علاقے سے اپنے مسلح آدمیوں کی بڑی تعداد ، چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں اور خفیہ طور پر مدینہ روانہ کی، اور پھر کچھ دنوں کے بعد مدینہ والوں نے دیکھا کہ باغیوں اور بلوائیوں کی ایک بڑی جماعت نعرہ تکبیر بلند کرتی ہوئی مدینہ میں داخل ہو گئی ہے۔ عبداللہ بن سبا نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت اور ان کی خلیفہ بنانے کا دعویٰ کر کے جن لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا تھا ان تک اس نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک جعلی خط بھی گشت کرایا تھا جس میں گویا انہوں نے باغیوں کی حمایت کا اعلان کیا تھا ، چنانچہ بلوائیوں نے مدینہ پہنچ کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مدد کی درخواست کی تو انہوں نے اس کی کسی بھی طرح سے مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا، انہوں نے ان سے اسبات کا انکار کیا کہ میں نے تم لوگوں کی حمایت کا اظہار کیا اور کہا کہ میں نے کبھی بھی تم لوگوں کو خط نہیں لکھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلوائیوں کو ان کی سازش سے دور رکھنے کی بہت کوشش کی، دوسرے صحابہ نے اس معاملے کو سلجھانے کی سعی کی، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلوائیوں کے مطالبے پر مصر کے گورنر کو معزول بھی کر دیا لیکن اصل تحریک کا مقصد ہی محض شورش وبغاوت پھیلانا تھا اس لئے بلوائیوں کے لیڈروں نے صورت حال کو معمول پر لانے اور شورش کو دبانے کی تمام تدابیر کو ناکام بنا دیا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رنگ اور مدینہ کے گلی کوچوں کو بلوائیوں سے دیکھ کر مختلف بلاد اسلامیہ کے گورنروں کو خط لکھ کر امداد طلب کی، اور ان بلاد سے سرکاری فوجیں بلوائیوں کی سرکوبی کے لئے مدینہ کی طرف روانہ بھی ہو گئیں لیکن بلوائیوں نے ان فوجوں کے آنے سے پیشتر ہی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان کو گھیر کر ان کا محاصرہ کر لیا، اس موقع پر یہ ظاہر کر دینا نہایت ضروری ہے کہ اس صورت حال کو بگاڑنے میں بڑا دخل مروان بن حکم کا تھا جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چچا زاد بھائی اور ان کا میر منشی و وزیر تھا، اس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مروت وچشم پوشی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنی بد اطواریوں ، جعل سازیوں اور عوام مخالف اقدامات کے ذریعے عام مسلمانوں اور خصوصا اہل مدینہ کو بہت زیادہ برہم کر رکھا تھا، اہل مدینہ نے اس موقع پر فائدہ ضرور اٹھانا چاہا کہ مروان کے خلاف وہ بھی بلوائیوں کے شریک حال ہو گئے لیکن ان کا مطالبہ صرف مروان کو اس کے عہدے سے معزول کر کے اہل مدینہ کے سپرد کر دینے کا تھا اور اگر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل مدینہ کا مطالبہ مان لیتے تو شاید بلوائیوں کو اپنے اصل مقصد میں زیادہ کامیابی نہ ہوتی کیونکہ پھر مدینہ کے لوگ بلوائیون کی حمایت ترک کر کے پوری طاقت سے ان کا مقابلہ کرتے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مروت کو گوارہ نہ کیا کہ وہ مروان کو اہل مدینہ کے حوالے کر کے ان کے ہاتھوں اس کے قتل ہو جانے کا منظر دیکھیں بہرحال جب بلوائیوں نے زیادہ شورش برپا کی یہاں تک کہ ان کے مکان میں پانی جانے تک پر پابندی عائد کر دی اور جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ودیگر جلیل القدر صحابہ کو یہ معلوم ہوا کہ اب بلوائی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان کا دروازہ توڑ کر ان کو قتل کر دینا چاہتے ہیں تو ان سب سے اپنے صاحبزادوں اور دوسرے متعدد آدمیوں کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حفاظت پر معمور کیا، اور ان لوگوں نے بڑی جوان مردی سے بلوائیوں کا مقابلہ کر کے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا اور دروازے پر جم کر کھڑے ہو گئے، کچھ حضرات نے ان کے مکانوں کی چھتوں پر پہرہ دینا شروع کیا بلوائیوں نے یہ سوچ کر کہ باہر سے سرکاری فوجوں کی آمد سے پہلے بہت جلد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کام کسی نہ کسی طرح تمام کر دینا چاہئے یہ چال چلی کہ خفیہ طور پر ایک پڑوسی کے مکان میں گھس گئے اور دیوار پھاند کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان میں داخل ہو گئے اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جو محافظین تھے ان میں سے کچھ تو کوٹھے پر چڑھے ہوئے باغیوں کی کوشش اور نقل حرکت کی نگرانی کر رہے تھے، اور کچھ دروازے پر جمے ہوئے بلوائیوں کو اندر گھسنے سے روک رہے تھے ، مکان کے اندر صرف عثمان رضی اللہ عنہ تھے اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، بلوائیوں نے گھستے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر تلوار چلائی جو قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف تھے، ان کی بیوی نے فوراً آگے بڑھ کر ٹھوکریں ماریں جس سے آپ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں ، پھر تمام بلوائیوں نے زبردست ریلے کے ذریعے مکان کے اندر دھاوابول دیا ، گھر کا سارا سامان لوٹ لیا اور بڑی وابتری مچائی ، یہ المناک حادثہ ١٨ذی الحجہ ھ جمعہ کے روز ہوا تین روز تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی لاش بے گور و کفن پڑی رہی، پورے شہر پر بلوائیوں کا تسلط تھا، آخر بعض حضرات نے کوشش کرے کے تین دن کے بعد رات کے وقت ان کی نعش مبارک کو بغیر غسل دئیے ہوئے کپڑوں میں دفن کر دیا، نماز جنازہ حضرت جبیر ابن مطعم نے پڑھائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اس ہولناک اور مظلومانہ شہادت کے ذریعے ان کا دور خلافت ختم ہو گیا اور بد بخت یہودیوں کی ایک تباہ کن سازش کو کامیاب ہونے کا موقع مل گیا۔

یہ حدیث شیئر کریں