مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 1343

ایک پیشین گوئی

راوی:

وعن عبد الله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم قال تدور رحى الإسلام لخمس وثلاثين أو ست وثلاثين أو سبع وثلاثين فإن يهلكوا فسبيل من هلك وإن يقم لهم دينهم يقم لهم سبعين عاما . قلت أمما بقي أو مما مضى ؟ قال مما مضى . رواه أبو داود .

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ اسلام کی چکی پینتیس برس یا چھتیس برس یا سینتیس برس تک گھومتی رہے گی پھر اگر لوگ ہلاک ہوں گے تو اس راستے پر چلنے کی وجہ سے ہلاک ہوں گے جس پر چل کر پہلے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور اگر ان کے دین کا نظام کامل وبرقرار رہا تو ان کے دینی نظام کی تکمیل وبرقرار کا وہ سلسلہ ستر برس تک رہے گا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر پوچھا کہ یہ سترہ برس بقیہ میں سے ہوں گے یا اس عرصے سمیت ہوں گے جو گزرا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کے نظام کی تکمیل وبرقرار کے لئے جس ستر سال کے عرصے کا ذکر فرمایا ہے آیا اس سے ستر سال کا وہ عرصہ مراد ہے جس کی اتبداء ٣٥یا ٣٦سال کا مذکورہ زمانہ گزرنے کے بعد ہوگی، یا وہ مذکورہ سال بھی اس ستر سال کے عرصے میں شامل ہیں اور اس کی ابتداء اسلام کے ابتدائی زمانہ یا ہجرت کے وقت سے مراد لی گئی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ مذکورہ سال بھی ان ستر سالوں میں شامل ہیں اور ستر سال کا عرصہ اس عرصہ سمیت ہے جو اسلام کے ابتدائی زمانہ یا ہجرت کے وقت سے اب تک گزر چکا ہے۔ (ابو داؤد)

تشریح
" اسلام کی چکی گھومتی رہے گی" سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطلب یہ ہے تاکہ وہ زمانہ کہ جس میں دین کا نظام مستحکم واستوار رہے گا، احکام شریعت کی بھر پور حکمرانی ہو گی، مسلمانوں کے تمام دینی ودنیاوی معاملات قرآن وست کے مطابق خوش اسلوبی کے ساتھ چلتے رہیں گے اور دین وآخرت کی فتنہ وفساد سے محفوظ ومامون رہے گی، ٣٥یا ٣٦سال پر مشتمل ہوگا اور اس زمانے کی ابتداء ہجرت کے سال سے ہے کہ اسلام کے ملی سیاسی ظہور اور ملکی فتوحات کا سلسلہ ہجرت ہی سے شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا سانحہ اسلام کی تاریخ کا وہ پہلا فتنہ ہے جس نے مسلمانوں کی دینی وملی زندگی کو سخت دھچکا لگایا اور اسلام کی سیاسی طاقت باہمی افتراق وانتشار کی وجہ سے بہت مضمحل ہوگئی ۔ یہ فتنہ ٣٥ھ میں ظاہر ہوا، اس کے بعد ٣٦ھ میں جنگ جمل ٣٧ھ میں جنگ صفین کے فتنے پیش آئے، جن سے مسلمانوں کے دین وملی نظام اور سیاسی استحکام کو ہلا کر رکھ دیا اور اس کے نہایت روح فرسا نتائج نکلے۔
واضح رہے کہ لخمس وثلثین او ست وثلثین او سبع وثلثین (٣٥برس یا ٣٦برس یا ٣٧ برس) میں حرف او (بمعنی یا) تنویع کے لئے یا بل (بلکہ) کے معنی میں ہے۔
٣٥یا ٣٦برس کے تعین کے سلسلے میں ایک وضاحت تو وہ ہے جو اوپر بیان کی گئی یعنی ابتداء تو سال ہجرت سے شمار کی جائے اور انتہاء حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اور پھر جنگ جمل وجنگ صفین کو قرار دیا جائے تو بالترتیب ٣٥ھ،٣٦ھ،٣٧ھ کے واقعات ہیں لیکن اس بارے میں ایک احتمال یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کلام اس سال ارشاد فرمایا تھا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے چند ہی سال باقی رہ گئے تھے اور اگر ان چند سالوں کو خلفاء اربعہ کی مدت خلافت کے ساتھ جوڑا جائے تو ان سب کی مجموعی مدت اتنے ہی سالوں پر مشتمل ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ارشاد گرامی میں ظاہر فرمائی ۔ گویا اس قول کے مطابق ٥٣یا ٦٣یا ٧٣سال کا ابتدائی تو اس کو قرار دیا جائے گا، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی اور ان سالوں کا آخری سال حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے سال آخر کو قرار دیا جائے گا ، لہٰذا دین کے نظام کے استقرار وتکمیل سے اگر یہ مراد لیا جائے کہ ان مذکورہ سالوں میں دین کی پوری طرح محفوظ ومامون رہے گا کہ بدعت اور فکر وجمال کی لغزش تک کو دین میں راہ پانے کا موقع نہیں ملے گا اور ملک وملت کا کوئی بھی کام شارع کے حکم کے خلاف نہیں ہوگا تو پھر مذکورہ سالوں کے تعین کے سلسلے میں یہی وضاحت مناسب تر اور اولیٰ ہوگی اور اگر " دین کے استقرار اور تکمیل " سے مراد لیا جائے کہ ملک وملت کے تمام کا انتظام وفتنہ وفساد سے پاک ہوں گے خلافت کا مسئلہ خوش اسلوبی اور اتفاق واتحاد کے ساتھ طے پاتا رہے گا اور مسلمانوں کے درمیان کوئی محاذ آرائی اور مخالفت وعناد کی صورت پیدا نہیں ہوگی تو پھر مذکورہ سالوں کے تعین میں وہ وضاحت مناسب تر ہوگی جو پہلے نقل کی گئی ۔ ایک اور احتمال یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مذکورہ سالوں کی ابتداء اس وقت سے لگائی جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تھا یعنی نبوت کا پہلا سال اس صورت میں ٣٥برس کی مدت کا اختتام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے اختتام پر ہوگا یہ احتمال اس اعتبار سے قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد دین وایمان کی سلامتی ، سنت کی اتباع، جماعتی اتحاد واتفاق، مسلمانوں کی باہمی قلبی محبت ورواداری اور دین وملت کا اخلاق وسیاسی استحکام جس زمانے میں بت عمدہ اور نہایت خوبی کے ساتھ تھا، وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ہی خلافت کا زمانہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں ایک دو سال کے بعد ہی جو صورت پیدا ہو گئی اور دین وملت کے نظم واستحکام کے منافی جو حادثات و واقعات ظاہر ہونے شروع ہوئے وہی ان فتنوں کا باعث جنگی حشر سامانیوں نے اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کو نہایت مکدر کر رکھ دیا۔
" پھر اگر لوگ ہلاک ہوں گے الخ" کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ سالوں میں دین وملت کے اخلاق وسیاسی نظام میں استحکام و استقرار کے بعد اگر لوگ اپنے دین وملی معاملات میں اختلاف وانتشار کا شکار ہو جائیں دین وآخرت کے امور میں سستی و کوتاہی کا شکار اور گناہ ومعصیت کا ارتکاب کرنے لگیں تو سمجھو کہ خطرناک راستے پر پڑ گئے ہیں جس پر پچھلی امتوں کے لوگوں نے تباہی وبربادی اور ہلاکت مول لی تھی، چنانچہ پچھلی امتوں کے لوگ اسی لئے تباوہ وبرباد اور ہلاک کر دئیے گئے تھے کہ انہوں نے کجروی اختیار کر لی تھی، حق سے دور ہٹ گئے تھے ، شرع احکام اور اپنے ملی معاملات میں اختلاف وانتشار کا شکار ہو گئے تھے اپنے دین پر عمل کرنے اور اپنے پیغمبر کی تعلیمات کو ماننے میں سستی و کوتاہی اور لاپرواہی برتنے لگے تھے اور گناہ ومعصیت سے اجتناب نہیں کرتے تھے۔ واضح رہے کہ جو چیزیں انسان کی ہلاکت وتباہی کا سبب بنتی ہیں اور جن کو اختیار کر کے کوئی شخص ہلاکت میں مبتلا ہوتا ہے یہاں ان ہی اسباب کو ہلاکت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
" اگر ان کے دین کا نظام کامل وبرقرار رہا الخ " کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمان پہلے کی طرح اپنے امیر وخلیفہ کی اطاعت و فرمانبرداری پر قائم رہے، احکام شریعت اور دینی نظام کو برقرار رکھنے اور ان کی اتباع کرنے پر عامل رہے اور ملی اتحاد واتفاق کے ذریعے اسلام کی شوکت کو بحال رکھنے میں مصروف رہے تو ان کے دو ملی اور سیاسی استحکام وبرقرار کا سلسلہ ستر برس تک جاری رہے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ستر برس کی تحدید سے کیا مراد ہے؟ تو اس کا حقیقی مفہوم پوری وضاحت کے ساتھ سامنے ہے، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ دینی وملی نظام کے اخلاقی وسیاسی استحکام کے سلسلے میں جو بات پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ وہ یعنی دین وملی استحکام ٣٥یا ٣٦یا٣٧سال تک قائم رہے گا تو اسی کے اعتبار سے یہ بات کہی گئی ہے کہ مسلمانوں کے ملی وملکی امور اور سیاسی وانتظامی معاملات آنے والے زمانہ کی بہ نسبت ان ستر سالوں میں زیادہ عمدگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پاتے رہیں گے۔
بہرحال اس حدیث کی تشریح میں یوں تو شارحین نے بہت زیادہ بحث کی ہے اور لمبی چوڑی باتیں لکھی ہیں لیکن قابل اعتماد واعتبار مسلک وعقیدہ کے مطابق نیز حدیث کے الفاظ کی رعایت ملحوظ رکھتے ہوئے مختصر طور پر جو تشریح بیان کی جا سکتی تھی وہ یہاں نقل کر دی گئی ہے جو انشاء اللہ کافی ہوگی ۔ لیکن اگر اسی اختصار کے ساتھ حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی کے ان منقولات وفرمودات کو بھی بیان کر دیا جائے جو اس حدیث کی تشریح سے تعلق رکھتے ہیں تو حدیث کے فرمودات اور اس کے مصداق کی کچھ اور وضاحت ہو جائے گی۔ چنانچہ شاہ صاحب کے مطابق جو حدیث کا حاصل اور مصداق یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ زمانہ ہجرت کے بعد اسلام کی پیش قدمی اور مسلمانوں کی حالات میں جو مضبوطی واستحکام پیدا ہوا ہے ، وہ ٣٥،٣٦، سالوں تک یوں ہی چلتا رہے گا اور تمام دینی وملی معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ طے پاتے رہیں گے، پھر اسلام کے دائرہ میں کچھ اضطراب واقع ہو جائے گا اور باہمی افتراق وانتشار جب کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہات کا سانحہ پیش آیا۔ پھر ٣٦ھ میں مزید بگاڑ واقع ہوا جب کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان محاذ آرائی ہوئی اور جس کو جنگ جمل کہا جاتا ہے اور اس کے بعد ٣٧ھ میں حالات بالکل ہی قابو سے باہر ہو گئے اور اسلام ومسلمانوں کو سخت ونقصان وتباہی سے دوچار ہونا پڑا ۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان بڑی خوفناک جنگ جنگ صفین کے نام سے ہوئی اس کے بعد گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ مسلمانوں کے دینی اور ملی نظام میں اس خرابی کے واقع ہونے کے بعد اور باغیوں کے غالب آ جانے اور خلیفہ برحق مغلوبیت کی وجہ سے اگر لوگ دین وملی نظام کو تباہ کرنے والے ان اعمال و اطوار کو اختیار کر کے ہلاک ہوں گے تو وہ اس راستے پر چلنے کی وجہ سے ہلاک ہوں گے جس پر پچھلی امتوں کے لوگوں نے چل کر ساتھ اپنی خلافت سے دست کش ہونا پڑا اور جس طرح ان کو گویا مغلوب ہونا پڑا جس کے نتائج آگے چل کر باہمی افتراق وانتشار اور جاہ اقتدا کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف قتل وقتال کی صورت میں رونما ہوئے اور اگر خلیفہ برحق کا اقتدار وتسلط قائم رہا اور باغیوں کو غالب آنے کا موقع نہ مل سکا تو مسلمانوں کا دین وملی نظام آنے والے زمانوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ عمدگی کے ساتھ چلتا رہے گا اور یہ نظام ستر برس تک یوں ہی قائم رہے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں