مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 1342

چند پیشین گوئیاں

راوی:

وعن ثوبان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا وضع السيف في أمتي لم يرفع عنها إلى يوم القيامة ولا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشركين وحتى تعبد قبائل من أمتي الأوثان وإنه سيكون في أمتي كذابون ثلاثون كلهم يزعم أنه نبي الله وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي ولا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين لا يضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله . رواه أبو داود .

حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ جب میری امت میں آپس میں تلوار چل جائے گی تو پھر قیامت تک امت کے لوگوں کے قتل وقتال سے باز نہیں رہے گی۔ اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے بعض قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ جا ملیں گے اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے بعض قبائل بتوں کو پوجنے لگیں گے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میری امت میں سے تیس جھوٹے (یعنی نبوت کا دعویٰ کرنے والے) ظاہر ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے جب کہ واقعہ یہ ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری امت میں سے ہمیشہ ایک جماعت حق پر ثابت قدم رہے گی (یعنی عملی طور پر بھی اور علمی طور پر بھی دین کے صحیح راستے پر چلنے والی ہوگی اور دشمنان دین پر غالب رہے گی) اس جماعت کا کوئی بھی مخالف وبدخواہ اس کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا (کیونکہ اس جماعت کے لوگ دین پر ثابت قدم اور برحق ہونے کی وجہ سے اللہ کی مدد و نصرت کے سایہ میں ہوں گے) تآنکہ اللہ کا حکم آئے۔ ( ابوداؤد ، ترمذی)

تشریح
حدیث کے پہلے جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ کو بعض مسلمانوں کی وجہ سے میری امت میں باہمی محاذ آرائی آپس میں قتل وقتال کی سیاست کو عمل ودخل کا موقع مل گیا تو پھر مسلمانوں کی باہمی خونریزی اور ایک دوسرے کے خلاف تشدد وطاقت کے استعمال کا ایسا سلسلہ شروع ہو جائے گا جو قیامت تک ختم نہیں ہوگا اور ہمیشہ میری امت کے لوگ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی صورت میں اپنی ہی صفوں کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا بالکل صحیح ثابت ہوا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے مسلمانوں کی جو باہمی محاذ آرائی شروع ہوئی تھی اس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
" جب تک میری امت کے بعض قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ جا ملیں گے" حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیشین گوئی کا کچھ حصہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ہی سامنے آ گیا تھا جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی زمانہ خلافت میں عرب کے چند قبائل کچھ شرپسندوں اور منافقین کے فریب میں آ کر ارتداد میں مبتلا ہو گئے اور کفر وشرک کی طاقتوں کے ساتھ مل گئے تھے، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فراست ودانش مندی اور قوت فیصلہ کی مضبوطی واولوالعزمی نے ان مرتدین کا استیصال کر دیا تھا۔
" جب تک میری امت کے بعض قبائل بتوں کو پوجنے لگیں گے" میں بتوں کا پوجنا اگر حقیقی معنی میں مراد ہے تو کہا جائے گا کہ شاید آئندہ زمانے میں کوئی وقت ایسا بھی آئے جب مسلمانوں کے کچھ طبقے ایمان واسلام کا دعویٰ رکھنے کے باوجود ، واقعۃً بتوں کی پوجا کرنے لگیں ۔ ویسے موجودہ زمانے میں بھی ایسے مسلمانوں کا وجود بہرحال پایا جاتا ہے جو قبر پرستی اور تعزیہ کی پرستش وغیرہ کی صورت میں اپنی پیشانیاں غیر اللہ کے آگے سجدہ ریز کرتے ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ اس جملے میں بتوں کو پوجنے والی بات اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہے بلکہ اسے مجازی اور معنوی صورت مراد ہے تو پھر اس کے محمول کی بہت صورتیں ہو سکتیں ہیں جو ہر زمانے میں پائی جاتی ہیں، ان میں سے ایک صورت مال ودولت اور جاہ واقتدار وغیرہ کے حصول کو اپنی زندگی کا اصل مقصد اور اپنی امیدوں اور آرزوؤں کی واحد آماجگاہ بنا لیتا ہے ، اس صورت میں اس ارشاد گرامی کا ایک محمول وہ لوگ بھی ہیں جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے۔ تعس عبدالدیناوعبدالدرہم۔ درہم ودینا یعنی مال ودولت کے غلام ہلاک ہوں۔ لفظ " خاتم" ت کے زیر اور زبر دونوں کے ساتھ آتا ہے۔ اور وانا خاتم النبیین کے جملہ نحوی قاعدہ کے اعتبار سے حال واقع ہوا ہے نیز لا نبی بعدی کا جملہ اپنے پہلے جملہ یعنی وانا خاتم النبیین کی تفسیر و وضاحت کے طور پر ہے۔
" تا نکہ اللہ کا حکم آئے" میں اللہ کے حکم" سے مراد قیامت ہے یا دین کا اس طرح تسلط وغلبہ پا لینا مراد ہے کہ روئے زمین پر کفر کا کوئی نام ونشان باقی نہ رہے ۔ نیز حتی یاتی الخ کا جملہ، لفظ لاتزال سے متعلق ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں