فتنہ وفساد سے دور رہنے والا شخص نیک بخت ہے
راوی:
وعن المقداد بن الأسود قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن السعيد لمن جنب الفتن أن السعيد لمن جنب الفتن إن السعيد لمن جنب الفتن ولمن ابتلى فصبر فواها . رواه أبو داود .
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یقینا نیک بخت وہ شخص ہے جو فتنوں سے محفوظ رکھا گیا ہو، یقینا نیک بخت وہ شخص ہے جو فتنوں سے محفوظ رکھا گیا ہو (گویا آپ نے بات کی اہمیت کو زیادہ موثر اور تاکیدی انداز میں بیان کرنے کے لئے یہ جملہ تین بار ارشاد فرمایا) اور یقینا نیک بخت وہ شخص بھی ہے جو فتنہ میں مبتلا کیا گیا لیکن اس نے صبر و ضبط کا دامن پکڑے رکھا اور قابل افسوس وہ شخص ہے جو نہ فتنوں سے محفوظ رکھا گیا اور نہ اس نے صبر وضبط اختیار کیا۔ (ابو داؤد)
تشریح
" واھا " کے معنی ہیں افسوس، حسرت اور کبھی یہ لفظ عجب ، یعنی خوشی ظاہر کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، پس اگر یہاں یہ لفظ اظہار افسوس وحسرت کے معنی میں لیا جائے تو کہا جائے گا کہ " فواھا " کا لفظ ماقبل جملہ یعنی لمن ابتلی فصبر سے الگ ہے اور ایک ایسے جملے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جو اگرچہ لفظوں میں مذکور نہیں ہے لیکن اس کا مفہوم مراد لیا گیا ہے، اس صورت میں پوری عبارت گویا یوں ہوگی کہ یہ اور قابل افسوس وہ شخص ہے جو فتنوں سے محفوظ نہ رکھا گیا ہو اور فتنوں میں مبتلا ہونے کی صورت میں اس نے صبر و ضبط اختیار نہ کیا ہے۔ اس طرح ماقبل جملہ لمن ابتلی فصبر میں لفظ لمن کے لام کو مفتوح قرر دیا جائے گا۔ اور اگر یہاں " واھا " کے معنی عجب یعنی خوشی کو ظاہر کرنا ، مراد ہوں تو اس صورت میں فواھا کسی علیحدہ جملے کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے نہیں ہوگا یا یہ کہ ماقبل جملہ لمن ابتلی فصبر سے جڑا ہوا سمجھا جائے گا اور اس جملے کا ترجمہ یوں ہوگا کہ فتنوں سے محفوظ رہنا اور اگر فتنے میں مبتلا ہو جائے تو صبر و ضبط اختیار کرنا کتنی اچھی اور خوش کرنے والی بات ہے؟ چنانچہ بعض محدثین نے جو یہاں لمن ابتلی فصبر میں لمن کے لام کو زیر کے ساتھ پڑھا اور لکھا ہے اور اس کو فواھا کے متعلق کہا ہے تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہاں واھا کا لفظ عجب ، یعنی اظہار خوشی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔