مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 1339

فتنہ دہیما کا مصداق

راوی:

فتنہ دہیما کے بارے میں حضرت شاہ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ اس کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ترکوں (تاتاریوں) کے اس قبضہ وتسلط کی پیشین گوئی فرمائی جس نے اسلامی شہروں کو تراج کیا اور مسلمانوں کو سخت ترین تباہی وبربادی سے دوچار کیا، چنانچہ اس وقت جس جس نے ترکوں کی حمایت کی اور ان کے معاون بنے وہ منافقین کے زمرے میں شمار کئے گئے یہ ساتویں صدی ہجری کے وسط کا واقعہ ہے جب کہ خلافت عباسیہ کا آخری فرمانروا مستعصم باللہ بن مستنصر باللہ بغداد کے تخت خلافت پر متمکن تھا، یہ انتہائی کم ہمت، بے حوصلہ اور غیر مدبر خلیفہ تھا اس نے اپنا وزیر موئد الدین علقمی کو بنا رکھا تھا جو نہایت متعصب اور بدباطن شیعہ تھا علقمی نے عہد وزارت پر فائز ہوتے ہی اپنی عیاریوں اور چالا کیوں سے خلیفہ کو عضو معطل بنا کر خود سیاہ وسفید کا مالک بن بیٹھا، اس کی شروع سے یہ خواہش تھی کہ کسی طرح عباسیوں کا نام ونشان ختم کر کے بغداد میں علویوں کی خلافت قائم ہو جائے اس خواہش کی تکمیل کے لئے اس نے ایک غیر ملکی طاقت یعنی تاتاریوں سے سازباز کر لی اور چنگیزخاں کے پوتے ہلاکو خان کو دعوت دی کہ تم اپنی فوج لے کر بغداد پر حملہ کر دو، میں نہایت آسانی کے ساتھ تمہیں بغداد کی خلافت اور اس کے زیر تسلط دوسرے علاقوں اور ممالک پر قبضہ کرا دوں گا، ہلاکو خاں کو شروع میں تو اس کی دعوت قبول کرنے میں تامل ہوا کیونکہ اہل بغداد کی شجاعت وبہادری اور خلافت کی ہیبت سے مرعوب تھا لیکن جب علقمی نے مختلف حیلوں اور سازشوں کے ذریعے بغداد کی فوج کا بہت بڑا حصہ دور دراز کے علاقوں اور شہروں میں منتشر کرا دیا اور باقی ماندہ فوجیوں کے ذریعے شہر میں بعض اقدامات کرا کے لوٹ مار کا بازار گرم کرا دیا جس سے سخت ابتری اور انتشار پھیل گیا اور ہلاکو خان کو معلوم ہو گیا کہ خلافت کی طاقت بہت کمزور ہو گئی ہے اور خلیفہ کی طاقت بہت کمزور ہو گئی ہے اور خلیفہ کی فوج کسی بڑے عملے کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہی ہے تو ہلاکو خان نے اس دعوت کو قبول کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کی، علقمی نے ایک چال اور اختیار کی اس نے بغداد کے شیعوں کی طرف سے ہلاکو خان کو کثیر تعداد میں بغداد پر حملہ کرنے کی دعوت پر مشتمل خطوط راوانہ کر ادئیے جن میں یہ لکھا گیا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے بطور پیشین گوئی ہمیں خبر دی تھی کہ فلاں سن میں فلاں تاتاری سردار بغداد وعراق پر قبضہ کر لے گا اور ہمارا یقین ہے کہ وہ فاتح سردار آپ ہی ہیں اس بات سے ہلاکو خان کے ارادے کو اور تحریک ملی، ادھر خود ہلاکو خان کے دربار میں ایک شیعہ نصیرالدین طوسی پہلے سے موجود تھا اور علقمی کی طرح وہ بھی عباسیوں کی خلافت ختم کرانے کے درپے تھا، اس نے بھی مختلف ترغیبات اور لالچ کے ذریعے ہلاکو خان کے ارادے کو بہت تقویت پہنچائی۔
چنانچہ ہلاکو خان نے پہلے تو ایک زبردست فوج ہر اول دستے کے طور پر بغداد کی طرف روانہ کی جس کا مقابلہ خلیفہ کی کمزور فوج سے ہوا اور شروع میں اس فوج نے کچھ کامیابی بھی حاصل کی مگر انجام کار شکست سے دوچار ہوئی اور تاتاریوں کا ہر اول دستہ کامیاب رہا، پھر ہلاکو خان ایک بہت بڑی فوج لے کر بغداد کے اوپر چڑھ آیا اور شہر کا محاصرہ کر لیا، اہل شہر نے اس کا مقابلہ کیا اور پچاس روز تک تاتاریوں کو شہر میں گھسنے نہیں دیا۔ لیکن بغداد کے شیعوں نے نہ صرف یہ کہ خفیہ طور پر ہلاکو خان سے اپنے لئے امن وتحفظ کی ضمانت حاصل کر لی تھی بلکہ شہر کے حالات اور فوجی اطلاعات بھی ہلاکو خان کو پہنچاتے رہے پھر علقمی نے ایک اور سازش کی ، اس نے خلیفہ سے کہا کہ میں نے آپ کے لئے امن وتحفظ کی ضمانت حاصل کر لی ہے، آپ ہلاکو خان کے پاس چلیں وہ آپ کے ساتھ اعزاز وتکریم سے پیش آئے گا اور مفاہمت کر کے آپ کو بغداد وعراق کا حکمراں باقی رکھے گا۔ خلیفہ علقمی کے بہکاوے میں آ کر اپنے بیٹے کے ساتھ شہر سے نکل کر ہلاکو خان کے لشکر میں پہنچا، ہلاکو خان نے خلیفہ کو دیکھ کر کہا کہ آپ اپنے اراکین سلطنت اور شہر کے علماء وفقہاء کو بھی یہیں بلوا لیجئے چنانچہ خلیفہ نے ان سب کو حکم بھیج کر وہاں بلوا لیا، جب سب لوگ آ گئے تو ہلاکو خان نے خلیفہ کے سامنے ہی ان سب کو ایک ایک کر کے قتل کروا دیا اس کے بعد ہلاکو خان نے خلیفہ سے کہا کہ تم شہر میں پیغام بھیج دو کہ اہل شہر ہتھیار رکھ کر شہر سے باہر آ جائیں، خلیفہ نے یہ پیغام بھی شہر میں بھیج دیا، اہل شہر باہر نکلے اور تاتاریوں نے ان کو قتل کرنا شروع کیا شہر کے تمام سوار پیادے اور شرفاء کھیرے ککڑی کی طرح کئی لاکھ کی تعداد میں کاٹ ڈالے گئے، شہر کی خندق ان کی لاشوں سے بھر گئی اور اس قدر خون بہا کہ اس کی کثرت سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہو گیا، تاتاری لوگ شہر میں گھس پڑے عورتیں اور بچے اپنے سروں پر قرآن شریف رکھ کر نکلے مگر تاتاریوں کی تلوار سے کوئی بھی نہ بچ سکا اور ان ظالموں نے بغداد اور اس کے مضافات میں چن چن کر لوگوں کو قتل کیا، شہر بغداد میں صرف چند شخص جو کنویں اور دوسری پوشیدہ جگہوں میں چھپے ہوئے رہ گئے، زندہ بچے، باقی کوئی متنفس زندہ نہیں چھوڑا گیا۔ اگلے دن یعنی ٩صفر ٦٥ھ کو ہلاکو خان ، خلیفہ مستعصم باللہ کو ہمراہ لے کر بغداد میں داخل ہوا اور قصر خلافت میں پہنچ کر دربار کیا، خلیفہ سے تمام خزانوں کی کنجیاں لے لیں، جتنے دفینے تھے سب حاصل کئے، پھر خلیفہ کو نظر بند کر دیا گیا اور بھوکا پیاسا رکھا گیا ، اس کے بعد جب ہلاکو خاں نے خلیفہ مستعصم کے مستقبل کے بارے میں اپنے اراکین سے مشورہ کیا تو سب نے رائے دی کہ اس کو قتل کر دینا چاہئے لیکن بدبخت علقمی اور طوسی نے کہا کہ نہیں تلوار کو اس کے خون سے آلودہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کو نمدے میں لپیٹ کر لاتوں سے کچلوانا چاہئے، چنانچہ یہ کام علقمی ہی کے سپرد ہوا اور اس نے اپنے آقا مستعصم باللہ کو نمدے میں لپیٹ کر اور ایک ستون سے باندھ کر اس قدر لاتیں لگوائیں کہ خلیفہ کا دم نکل گیا۔ پھر اس کی لاش کو زمین پر ڈال کر تاتاری سپاہیوں کے پیروں سے روندوا کر پارہ پارہ اور ریزہ کروا دیا اور خود دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہا کہ میں علویوں کا انتقام لے رہا ہوں غرض یہ کہ بدنصیب خلیفہ کی لاش کو گور و کفن بھی نصیب نہیں ہوا اور اس طرح خاندان عباسیہ کی خلافت کا خاتمہ ہو گیا اس کے بعد ہلاکو خان نے شاہی کتب خانہ کو بھی نہیں بخشا، جس میں بے شمار کتابوں کا ذخیرہ تھا، یہ تمام کتابیں دریائے دجلہ میں پھینک دی گئیں جس سے دریا میں ایک بند سا بندھ گیا اور بتدریج پانی ان سب کو بہا لے گیا، دجلہ کا پانی جو بغداد ومضافات کے مقتولین کے خون سے سرخ ہو رہا تھا اب ان کتابوں کی روشنائی سے سیاہ ہو گیا اور عرصہ تک سیاہ رہا۔ تمام شاہی محلات کو لوٹ کر مسمار کر دیا ۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس وقت ہلاکو خان کی فوج کے ہاتھوں بغداد اور مضافات بغداد میں جو قتل عام ہوا اس کے نتیجے میں ایک کروڑ چھ لاکھ مسلمان مقتول ہوئے۔ غرض یہ کہ وہ ایسی عظیم الشان اور ہیبت ناک خونریزی اور بربادی تھی جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں مل سکتی اور اسلام پر ایک ایسی مصیبت آئی تھی کہ لوگوں نے اس کو قیامت صغری کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ اس سانحہ عظمی کا سب سے زیادہ عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ علقمی نے جس علوی خلافت کے قیام اور اپنی حکمرانی کی خواہش کے تحت اتنی عظیم الشان تباہی وبربادی کے اسباب پیدا کئے اور پورے عالم اسلام کو زبردست نقصان پہنچنے کا باعث بنا، اس کے ہاتھ کچھ نہ لگا، ہلاکو خان نے کسی ہاشمی یا علوی کو خلیفہ وحکمران بنانے کے بجائے اپنے آدمیوں کو عراق میں حاکم بنا دیا، علقمی نے بہت چالیں چلیں ہلاکو خان کے آگے رویا گڑ گڑایا اور لاکھ منت سماجت کی لیکن ہلاکو خان نے اس کو اس طرح دھتکار دیا جس طرح کتے کو دھتکار دیتے ہیں کچھ دنوں تک علقمی غلاموں کی طرح تاتاریوں کے ساتھ ان کی جوتیاں سیدھی کرتا پھرا، آخر اپنی منافقت وغداری کا عبرتناک حشر دیکھ کر ناکامی ومایوسی کے غم سے بہت جلد مر گیا اس سانحہ کے بعد بغداد دارلخلافہ بھی نہیں رہا اور خلیفہ مستعصم باللہ کے بعد تین سال کا ایسا عرصہ گزرا جس میں دنیا میں کوئی خلیفہ نہیں تھا۔

یہ حدیث شیئر کریں