حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ اور اس کی تفصیل
راوی:
یہ بات تو طیبی نے لکھی ہے لیکن بعد کے علماء میں سے حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے اس حدیث میں مذکورہ فتنوں کے مصداق کا تعین کیا ہے چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ احلاس کے ذریعے جس فتنہ کی طرف اشارہ فرمایا تھا وہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جب کہ وہ یزید بن معاویہ کی خلافت کے اعلان کے بعد اس کی بیعت سے گریز کر کے مع اہل وعیال مدینہ سے نکل گئے اور مکہ آ گئے تھے پھر جب ٦٢ھ میں یزید بن معاویہ نے اپنے خلاف اہل مدینہ کی تحریک کو کچلنے کے لئے مسلم بن عقبہ کی کمان میں شامیوں کی ایک بڑی فوج مدینہ کی طرف روانہ کی تو مسلم نے اس شہر مقدس میں پہنچ کر بڑی تباہی پھیلائی اور اہل مدینہ کا قتل عام کرایا۔ یہ واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہے، مسلم نے شامیوں کی یہ فتح یاب فوج لے کر پھر مکہ کا رخ کیا۔ مسلم اگرچہ خود مکہ تک نہیں پہنچ سکا کیونکہ وہ راستے ہی میں مر گیا تھا، البتہ اس کی فوج حصین بن نمیر کی سر کردگی میں مکہ پہنچ گئی اور اس نے ایک دن کی جنگ کے بعد مکہ کا محاصرہ کر لیا، حصین بن نمیر نے کوہ ابن قیس پر منجنیق نصب کر کے خانہ کعبہ پر سنگ باری کا سلسلہ بھی شروع کر دیا اس محاصرے اور سنگ باری کے دوران کہ جس کا سلسلہ ایک ماہ سے بھی زائد عرصے تک جاری رہا ، اہل مکہ کو بڑی سخت تکلیفوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، اتفاق کی بات کہ اسی اثناء میں دمشق میں یزید کا انتقال ہو گیا اور ابن نمیر نے اس خبر کو سن کر محاصرہ اٹھا لیا اور اپنی فوج کو لے کر دمشق کی طرف واپس روانہ ہو گیا، اس کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت نہ صرف پورے حجاز میں قائم ہو گئی ، بلکہ عراق اور مصر تک کے لوگوں نے ان کی خلافت کو تسلیم کر لیا یہاں تک کہ یزید بن معاویہ کے جانشین معاویہ بن یزید کی تقریبا دو ماہ کی مختصر خلافت کے بعد جب کہ اس کا انتقال ہو گیا تھا تو حضرت عبداللہ بن زبیر پورے عالم اسلام کے خلیفہ تسلیم کر لئے گئے لیکن پھر چھ سات ماہ کے بعد مروان بن حکم نے اپنی سازشوں اور کوششوں میں کامیاب ہو کر شام پر قبضہ جما لیا اور دمشق میں اپنی خلافت کا اعلان کر دیا، شام کے بعد مصر اور عراق بھی حضرت زیبر کی خلافت سے نکل گئے اسی دوران مروان بن حکم مر گیا اور اس کا بیٹا عبدالملک بن مروان اس کا جانشین ہوا، عبدالملک نے زبردست جنگی طاقت کے ذریعے تقریبا تمام ہی علاقوں سے حضرت زبیر کی خلافت کو ختم کر دیا اور آخر میں حجاج بن یوسف کی کمان میں ایک لشکر جرار مکہ مکرمہ کی طرف روانہ کیا اور ٧٢ھ کے ماہ رمضان میں حجاج نے شہر مکہ کا محاصرہ کر لیا اور کوہ ابوقبیس پر منجنیق لگا کر سنگ باری شروع کر دی، اور محاصرہ سنگ باری کا یہ سلسلہ ذی الحجہ تک جاری رہا، اس عرصے میں اہل مکہ کو بڑی زبردست مصیبت و پریشانی اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا حج کے دنوں میں کچھ عرصے کے لئے سنگ باری بند ہو گئی اور حج ختم ہوتے ہی یہ سلسلہ پھر شروع ہو گیا جس کا نشانہ براہ راست خانہ کعبہ تھا جہاں حضرت عبداللہ محصور تھے اور آخری مرحلے پر حضرت عبداللہ بن زبیر نے خانہ کعبہ سے نکل کر محض چند ساتھیوں کے ہمراہ شامیوں کے اس عظیم لشکر پر حملہ کیا اور بڑی بہادری کے ساتھ لڑتے رہے جب وہ چند ساتھی بھی ایک ایک کر کے کام آ گئے اور خود ان پر دشمنوں نے چاروں طرف سے پتھروں اور تیروں کی بارش شروع کر دی تو دنیا کا یہ عظیم الشان بہادر ومتقی انسان داد شجاعت دیتا ہوا بڑی مظلومیت کے ساتھ جمادی الثانی ٧٣ھ کی ایک خوں آشام تاریخ میں اس طرح شہید ہوا کہ اس وقت میدان جنگ میں بہادری وشجاعت ، زہد وعبادت اور ہست وشرافت کے علاوہ کوئی انسان ان کی مبارک لاش پر کف افسوس ملنے والا بھی موجود نہیں تھا۔ یہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کا وہ واقعہ ہے جس کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے فتنہ احلاس کا مصداق قرار دیا ہے۔