فتنہ کا ذکر
راوی:
وعن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ستكون فتنة تستنظف العرب قتلاها في النار اللسان فيها أشد من وقع السيف . رواه الترمذي وابن ماجه .
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ عنقریب ایک بڑا فتنہ ظاہر ہونے والا ہے جو پورے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور اس کے بڑے اثرات ہر ایک تک پہنچیں گے اس فتنہ میں قتل ہو جانے والے لوگ بھی دوزخ میں جائیں گے نیز اس فتنہ کے وقت زبان کھولنا یعنی کسی کو برا بھلا کہنا اور عیب جوئی ونکتہ چینی کرنا تلوار مارنے سے بھی زیادہ سکت مضر ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
تشریح
اس فتنہ سے مراد باہمی قتل وقتال اور لوٹ مار کا وہ فتنہ ہے جو مختلف گروہ ، حق وسچائی کو ثابت کرنے اور دین کا جھنڈا بلند کرنے اور حق وانصاف کی مدد کے لئے نہیں بلکہ محض جاہ اقتدار اور دولت وسلطنت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کا خون بہانے اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے لگتے ہیں۔
اس وضاحت سے یہ بات بھی صاف ہو گئی کہ اس فتنہ کے مقتولین بھی دوزخ میں کیوں ہو جائیں گے، چنانچہ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جو شخص خانہ جنگی میں مبتلا ہو کر لوٹ مار کی خاطر کسی سے لڑے اور اس لڑائی کے دوران مارا جائے تو وہ نہ شہید کہلاتا ہے اور نہ اس کی موت کوئی بامقصد موت کہلاتی ہے بلکہ وہ ایک ایسی موت کے ہاتھوں مرتا ہے جو دین وشریعت کے تقاضوں اور اسلامی احکام کے خلاف جنگ وجدل کی صورت میں آتی ہے لہٰذا جس طرح ناحق خون بہانے والا قاتل دوزخ میں جائے گا اسی طرح وہ مقتول بھی دوزخ کی آگ کا مستوجب ہوگا۔