مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 1332

فتنوں کے وقت سب سے بہتر شخص کون ہوگا؟

راوی:

وعن أم مالك البهزية قالت ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنة فقربها . قلت يا رسول الله من خير الناس فيها ؟ قال رجل في ماشيته يؤدي حقها ويعبد ربه ورجل آخذ برأس فرأسه يخيف العدو ويخوفونه . رواه الترمذي .

حضرت ام مالک بہزیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ ایک دن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ کا ذکر فرمایا اور اس کو قریب تر کیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس فتنے کے زمانے میں سب سے بہتر کون شخص ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس زمانے میں سب سے بہتر شخص وہ ہوگا جو اپنے مویشیون کی دیکھ بھال اور ان کے گھاس چارے کے انتظام میں مصروف رہے ان کا حق ادا کرے یعنی ان پر جو زکوۃ اور شرعی ٹیکس وغیرہ واجب ہو، اس کو ادا کرے اور اپنے رب کی بندگی میں مشغول رہے اور وہ شخص بھی سب سے بہتر ہوگا جو اپنے گھوڑے کا سر یعنی اپنے گھوڑے کی پشت پر سوار اس کی باگ پکڑے کھڑا ہو اور دشمنان دین کو خوف زدہ کرتا ہو اور دشمن اس کو ڈراتے ہوں۔ (ترمذی)

تشریح
بہزیہ (ب کے زبر اور ہ کے جزم کے ساتھ ) ابن امرء القیس کی طرف منسوب ہے، حضرت ام مالک ایک صحابیہ ہیں اور حجازیہ کہلائی جاتی ہیں۔
" اور اس کو قریب تر کیا " کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس فتنہ کا ذکر فرمایا تو اس بات سے باخبر کیا کہ وہ فتنہ بالکل قریب ہے اور سامنے آنے والا ہے۔ اور طیبی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فتنہ کو بہت تفصیل و وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا اور چونکہ یہ ایک عام اسلوب ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے سامنے کسی چیز کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے اور اس کی خصوصیات وعلامات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ واضح کرتا ہے تو گویا وہ اس چیز کو مخاطب کے ذہن یا مشاہدہ کے قریب تر کر دیتا ہے، چنانچہ وہ مخاطب اس چیز کو نہ صرف اپنے ذہن وخیال میں جاگزیں پاتا ہے بلکہ وہ خارج میں بھی ایسا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے وہ چیز اپنی شکل وصورت کے ساتھ اس کے بالکل قریب موجود ہے۔
" جو شخص اپنے مویشیوں میں رہے" کا مطلب یہ ہے کہ اس فتنہ کے زمانے میں جب کہ مسلمانوں کے باہمی قتل وقتال اور محاذ آرائی کا بازار گرم ہو جائے گا ، فلاح یاب شخص وہی ہوگا جو فتنوں کی باتوں سے لاتعلق ، اور دنیا والوں سے بیگانہ رہ کر اور گوشہ عافیت اختیار کر کے بس اپنے جائز کاروبار میں مشغول اور اپنے معاملات کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوگا، اس پر اس کے کاروبار اور معاملات کے تئیں شریعت کے جو حقوق عائد ہوتے ہوں ان کو ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے گا اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ اور اس کی عبادت میں منہمک رہے گا۔ یہ ارشاد گرامی گویا قرآن کریم کی ان آیات (ففروا الی اللہ ، وتبتل الیہ تبتیلا۔ اور والیہ یرجع الامر کلہ فاعبدہ وتوکل علیہ وما ربک بغافل عما تعملون) کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔
" جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑے ہو الخ" کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اس فتنہ وفساد میں الجھنے اور آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کے بجائے ، اپنی طاقت وتوانائی ان لوگوں کے خلاف استعمال کرنے کی طرف متوجہ ہو جو دین اسلام کے اصل دشمن ومخالف ہیں اور ان سے نبرد آزمائی میں لگ جائے یہ چیز نہ صرف یہ کہ دین وملت کی اصل خدمت ہونے کی وجہ سے اجر و ثواب کا مستحق بنائے گی بلکہ اس فتنہ سے بچانے کا بہترین ذریعہ بھی ثابت ہوگی۔

یہ حدیث شیئر کریں