قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والے فتنوں کی پیشگوئی
راوی:
وعن أبي موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال إن بين يدي الساعة فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل مؤمنا ويمسي كافرا ويمسي مؤمنا ويصبح كافرا القاعد خير من القائم والماشي خير من الساعي فكسروا فيها قسيكم وقطعوا فيها أوتاركم واضربوا سيوفكم بالحجارة فإن دخل على أحد منكم فليكن كخير ابني آدم . رواه أبو داود . وفي رواية له
ذكر إلى قوله خير من الساعي ثم قالوا فما تأمرنا ؟ قال كونوا أحلاس بيوتكم . وفي رواية الترمذي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في الفتنة كسروا فيها قسيكم وقطعوا فيها أوتاركم والزموا فيها أجواف بيوتكم وكونوا كابن آدم . وقال هذا حديث صحيح غريب .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ قیامت آنے سے پہلے فتنے ظاہر ہوں گے جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے۔ ان فتنوں کے زمانے میں آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر ہو جائے گا۔ شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا۔ ان فتنوں کے وقت بیٹھ ہوا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا شخص دورنے والے سے بہتر ہوگا بس جب تم ان فتنوں کا زمانہ پاؤ تو اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا ، کمانوں کے چلوں کو کاٹ ڈالنا اور اپنی تلواروں کو پتھر پر دے مارنا (یعنی ان کے دھار کو کند و بیکار کر دینا اور جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو مارنے کے لئے آئے تو اس کو چاہئے کہ وہ حملہ آور کا مقابلہ کرنے اور اس سے لڑنے کی بجائے آدم کے دو بیٹوں میں سے بہترین بیٹے کی مانند ہو جائے۔ ( ابوداؤد ) اور ابوداؤد کی ایک اور روایت میں خیر من الساعی یعنی چلنے والا شخص دوڑنے والے سے بہتر ہوگا، کے الفاظ نقل کرنے کے بعد پھر یوں نقل کیا گیا ہے کہ صحابہ نے یہ ارشاد گرامی سن کر عرض کیا کہ تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ یعنی ہمیں ہدایت دیجئے کہ اس وقت ہم کیا کریں اور ان فتنوں میں کس طرح زندگی گزاریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جانا۔ ترمذی کی روایت اس طرح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ کے بارے میں یہ ہدایت فرمائی کہ " تم فتنوں کے زمانہ میں اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا اور ان کے چلے کاٹ ڈالنا ، نیز گھروں میں پڑے رہنے کو لازم کر لینا (یعنی اشد ضرورت کے علاوہ باہر نہ نکلنا اور اپنا سارا وقت گھروں میں گزارنے کے ذریعے لوگوں سے یکسوئی اختیار کئے رہنا تاکہ ان فتنوں کے برے اثرات سے محفوظ رہو) اور تم آدم کے بیٹے ہابیل کی طرح مظلوم بننا گوارہ کر لینا لیکن دفاع کی خاطر بھی کسی پر تلوار نہ اٹھانا، اس روایت کو ترمذی نے نقل کر کے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح غریب ہے۔
تشریح
" جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کے مانند ہوں گے " کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے باہمی قتل و قتال اور خونریزی کی صورت میں وہ فتنے اتنے زیادہ ہیبت ناک اور اس قدر شدید ہوں گے کہ دین وملت کا مستقبل تاریک تر نظر آنے لگے گا۔ اور اس وقت نیک وبد کے درمیان امتیاز کرنا اس طرح ناممکن ہو جائے جس طرح کہ اندھیری رات میں کسی کو شناخت کرنا ممکن نہیں ہوتا
" آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا الخ" کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے عقائد ونظریات اقوال واحوال اور طور طریقوں میں ساعت بساعت تبدیلی ہوتی رہے گی، کبھی کسی نظریہ وعقیدہ کے حامل ہوں گے، کبھی کسی کے ایک وقت میں کوئی عہد و پیمان کریں گے اور دوسرے وقت میں اس سے منحرف ہو جائیں گے، کبھی دیانت وامانت پر چلنے لگیں گے اور کبھی بد دیانتی وخیانت پر اتر آئیں گے کبھی سنت پر عمل کرتے نظر آئیں گے اور کبھی بدعت کی راہ پر چلتے دکھائی دیں گے، کسی وقت ایمان ویقین کی دولت سے مالا مال ہوں گے اور کسی وقت تشکیک و اوہام اور کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے لگیں گے، غرض یہ کہ ہر ساعت اور ہر لمحہ تبدیلی پیدا ہوتی نظر آئے گی اور اس امر کا یقین کرنا دشوار ہوگا کہ کسی شخص کی اصل کیفیت وحالت کیا ہے۔
" بیٹھا ہوا شخص کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا الخ" کا اصل مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ جو شخص ان فتنوں سے جتنا زیادہ دور ہوگا وہ اس شخص سے اتنا ہی زیادہ بہتر ہوگا جو ان فتنوں کے قریب ہوگا اس جملے کی تفصیلی وضاحت پہلی فصل میں کی جا چکی ہے ۔
" کمانوں کے چلوں کو کاٹ ڈالنا " یہ حکم گویا پہلے حکم یعنی" اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا " کو مؤ کد کرنے اور مقصد کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ اور پر زور انداز میں بیان کرنے کے لئے ہے، کیونکہ کمانوں کے ٹوٹ جانے کے بعد ان کے چلے اگر باقی بھی رہیں تو وہ کمانیں قطعی کارگر نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا کمانوں کے توڑ دینے کے حکم کے بعد ان کے چلوں کو کاٹ دینے کا حکم محض زور بیان اور تاکید حکم کے لئے ہے۔
" آدم کے بیٹوں میں سے بہترین بیٹے کی مانند ہو جائے " کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح آدم کے ایک بیٹے ہابیل نے مظلومیت کی موت کو گوارا کر لیا تھا لیکن اس نے آدم کے دوسرے بیٹے یعنی اپنے بھائی قابیل کے حملے کا جواب نہیں دیا اور سارا ظلم اور تمام زیادتی اسی کے سر ڈال دی تھی، اسی طرح فتنوں کے وقت کوئی شخص تم پر حملہ بھی کرے اور تمہیں قتل بھی کر دینا چاہے تو تم اس کا مقابلہ ہرگز نہ کرنا اور اس کے ہاتھوں مر جانے کو صبر و ضبط کے ساتھ گوارا کر لینا، کیونکہ اگر تم اس کا مقابلہ کرو گے تو اس کی وجہ سے فتنہ میں اور زیادہ شدت پیدا ہو جائے گی اور خونریزی بڑھ جائے گی، پس اس وقت اپنے حملہ آور کا مقابلہ کئے بغیر شہید ہو جانا، مقابلہ کرنے اور خونریزی میں کسی بھی طرح سے شرکت کر کے اپنی جان کو بچا لینے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔
" تم اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جانا " کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کسی اچھے فرش، جیسے قالین وغیرہ کے نیچے جو ٹاٹ بچھا ہوتا ہے وہ ہمیشہ اور ہر وقت اپنی جگہ پڑا رہتا ہے اسی طرح تم بھی اپنے گھروں میں پڑے رہا کرنا اور مکان کی چار دیواری سے باہر نکل کر ادھر ادھر نہ جانا تاکہ تم اس فتنے میں مبتلا نہ ہو جاؤ اور اس کے اثرات تمہارے دین کو تباہ نہ کر دیں۔ حاصل یہ کہ فتنہ انگیزی کی جگہ سے دور رہنا، لوگوں کے معاملات وکاروبار سے بے تعلقی ویکسوئی اختیار کر لینا، اور گوشہ عافیت میں پڑے رہ کر اپنے دین کی حفاظت کرنا، اس وقت نجات کی بہترین راہ ہوگی جب کہ مسلمانوں کے باہمی قتل وقتال ، افتراق وانتشار اور مناقشت ومنافقت کا فتنہ پھیل جائے۔