پر فتن ماحول میں نجات کی راہ
راوی:
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص أن النبي صلى الله عليه وسلم قال كيف بك إذا أبقيت في حثالة من الناس مرجت عهودهم وأماناتهم ؟ واختلفوا فكانوا هكذا ؟ وشبك بين أصابعه . قال فبم تأمرني ؟ قال عليك بما تعرف ودع ما تنكر وعليك بخاصة نفسك وإياك وعوامهم . وفي رواية إلزم بيتك واملك عليك لسانك وخذ ما تعرف ودع ما تنكر وعليك بأمر خاصة نفسك ودع أمر العامة . رواه الترمذي وصححه .
حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اس وقت تم کیا کرو گے جب تم اپنے آپ کو ناکارہ لوگوں کے زمانے میں پاؤ گے جن کے عہد وپیمان اور جن کی امانتیں خلط ملط ہوں گی اور جو آپ میں اختلاف رکھیں گے، گویا وہ ولوگ اس طرح کے ہو جائیں گے یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کیا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے ہدایت فرمائیے کہ اس وقت میں کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس وقت تم پر لازم ہوگا کہ اس چیز کو اختیار کرو اور اس پر عمل کرو جس کو تم دین و دیانت کی روشنی میں حق جانو اور اس چیز سے اجتناب ونفرت کرو جس کو تم ناحق اور برا جانو، نیز صرف اپنے کام اور اپنی بھلائی سے مطلب رکھو اور خود کو عوام الناس سے دور کر لو۔ اور ایک روایت میں یوں منقول ہے کہ اپنے گھر میں پڑے رہو بلا ضرورت باہر نکل کر ادھر ادھر نہ جاؤ اپنی زبان کو قابو میں رکھو، جس چیز کو حق جانو اس کو اختیار کرو اور جس چیز کو برا جانو اس کو چھوڑ دو، صرف اپنے کام اور اپنی بھلائی سے مطلب رکھو اور عوم الناس سے کوئی تعلق نہ رکھو۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے۔
تشریح
" حثالۃ" کے معنی ہیں چاول اور جو وغیرہ کا چھلکا، جس کو بھوسی کہتے ہیں اسی طرح کسی بھی چیز کے ناکارہ اور بے فائدہ حصے کو بھی حثالہ کہا جاتا ہے، پس " حثالۃ من الناس" سے مراد وہ لوگ ہیں جو انسانی واخلاقی قدروں کے اعتبار سے ادنیٰ درجے کے ہوں، جو انسانیت کا جوہر نہ رکھنے کے سبب نہایت پست ہوں اور جو دین وآخرت کے اعتبار سے بالکل ناکارہ اور بے فائدہ ہوں۔
" جن کے عہد و پیمان اور جن کی امانتیں خلط ملط ہوں گی" کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالکل بے اعتبار اور ناقابل اعتمال دولت ہوں گے ان کے کسی عمل اور کسی قول کا کوئی بھروسہ نہیں ہوگا، ان کے کسی اقدام اور کسی معاملہ میں پختگی واستقلال نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی، ان کے عہد و پیمان اور فیصلے لمحہ بہ لمحہ مختلف شکل وصورت میں بدلتے رہیں گے، دین ودیانت کے تقاضوں سے بے پرواہ ہوں گے اور امانتوں میں خیانت کریں گے۔
" اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کیا " یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سمجھانے کے لئے کہ وہ آپس میں کس طرح ایک دوسرے کی ہلاکت کے درپے ہوں گے، اور ان کے باہمی اختلاف ونزاعات کی کیا صورت ہوگی اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کر کے دکھایا اور بطور مثال واضح فرمایا کہ جس طرح ان دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہیں اسی طرح ان کی اخلاقی وسماجی حیثیت اس درجے الجھی ہوئی اور ان کے دینی معاملات واعمال اس قدر خلط ملط ہوں گے کہ امین وخائن اور نیک وبد کے درمیان تمیز کرنا ممکن نہیں رہے گا۔
واضح رہے کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کرنا جس طرح باہمی اختلاف ونزاع کو بطور تمثیل بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے اسی طرح کبھی دو چیزوں کے باہمی رطب واتصال اور اتفاق ویگانگت کو ظاہر کرنے کے لئے بھی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کر کے دکھایا جاتا ہے جیسا کہ مال غنیمت کی تقسیم کے بیان میں وہ حدیث گزری ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مال غنیمت کے خمس کی تقسیم کے تعلق سے بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کے باہمی ربط واتصال اور ان کی ایک دوسرے کے ساتھ قربت ویکجائی کو ظاہر کرنے کے لئے بطور تمثیل اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کر کے دکھایا تھا ۔ دونوں صورتوں پر اس تمثیلی عمل کا اطلاق معنوی طور پر بھی کوئی تضاد نہیں رکھتا بلکہ تشبیک کے جو اصل معنی ہیں، یعنی باہم مختلط ہونا، دو چیزوں کا ایک دوسرے میں داخل ہونا، وہ مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔
" اپنی بھلائی سے مطلب رکھو اور خود کو عوام الناس سے دور کر لو " کا ملطب یہ ہے کہ پر فتن دور میں سب سے زیادہ ضرورت خود اپنے نفس کی اصلاح اور اپنے دین و کر در کی حفاظت کی ہوتی ہے، لہٰذا اس وقت تم بھی بس اپنے دین اور اپنی اخروی بھلائی کے کاموں کی تکمیل وحفاظت میں مشغول رہنا اور دوسرے لوگوں کی طرف سے کسی فکر و خیال میں نہ پڑنا۔ یہ حکم ایسے ماحول میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ پر عمل نہ کرنے کی ایک درجہ میں اجازت کے طور پر ہے جب کہ شریر وبدکار لوگوں کی کثرت اور ان کا غلبہ ہو اور صالح ونیک لوگوں کی طاقت بہت کم ہو۔
" اپنی زبان کو قابو میں رکھو" کا مطلب یہ ہے کہ جب پورے ماحول میں برائیوں کا دور دورہ ہو جاتا ہے اور شریر وبدکار لوگوں کے اثرات غالب ہوتے ہیں تو زبان سے اچھی بات نکالنا بھی ایک جرم بن جاتا ہے، لہٰذا تم اس وقت لوگوں کے احوال ومعاملات کے بارے میں بالکل خاموشی اختیار کئے رکھنا ، کسی کی برائی یا بھلائی میں اپنی زبان نہ کھولنا تاکہ تمہاری بات کا برا ماننے والے لوگ تمہیں تکلیف وایذاء نہ پہنچائیں۔
اس موقع پر ایک خاص بات یہ ذہن میں رکھنے کی ہے کہ پر فتن دور کے سلسلے میں ایک حدیث تو یہ ہے اور ایک حدیث پیچھے گزری ہے جس کو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نقل کیا ہے ، ان دونوں میں ایک طرح سے تضاد نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ اس حدیث میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گویا حضرت عبداللہ بن عمرو کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ اس پر فتن ماحول میں بھی لوگوں کے درمیان بودوباش رکھنے سے پرہیز نہ کریں اور دنیا والوں سے مکمل یکسوئی علیحدگی اختیار نہ کریں، نیز ان کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ صرف اپنے نفس کے تزکیہ واصلاح اور اپنی دینی زندگی کو سدھارنے سنوارنے لگیں رہیں، عوام الناس کے معاملات سے کوئی سروکار نہ رکھیں اور ان کے حالات واعمال کے تئیں کوئی فکر نہ کریں۔ اس کے برخلاف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ حکم دیا کہ وہ ایسے ماحول میں بودوباش نہ رکھیں اور لوگوں سے مکمل علیحدگی ویکسوئی اختیار کر کے کسی ویرانہ وجنگل میں چلے جائیں دونوں حدیثوں کے اسی ظاہری تضاد کو دور کرنے کے لئے علماء نے لکھا ہے کہ ایک صورت حال کے لئے اس دو طرح کے حکم کا تعلق دراصل شخصی حالت کی رعایت ومصلحت کے اعتبار سے ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں میں سے ہر ایک کو وہ حکم دیا جو اس کی حالت وحیثیت کے مطابق تھا، جس میں اس کی اصلاح پوشیدہ تھی اور جس پر عمل کر کے وہ نجات وفلاح کی راہ پا سکتا تھا جیسا کہ مرشد ومصلح کا طرز اصلاح ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیر اور مرید کے ذہن ومزاج اور اس کے طبعی و شخصی حیثیت وحالت کے مطابق ہی اس کو تلقین وہدایت کرتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا کہ معلوم ہے نہایت اونچے درجے کے صحابی ہیں ، ان کی زندگی پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی عظمت وفضیلت کے حامل تھے، منقول ہے کہ وہ اپنی جوانی کے دنوں میں بھی اتنے عابد و زاہد تھے کہ افطار کئے بغیر مسلسل روزے رکھا کرتے تھے، رات بھر سوتے نہیں تھے بلکہ عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے، دنیاوی لذات وخواہشات سے اس قدر متنفر تھے کہ بیوی تک کی طرف کوئی رجحان نہٰ رکھتے تھے، ایک دن ان کے والد محترم حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور ان کی اس عبادت و ریاضت کا حال بیان کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اتنی سخت ریاضت اور اتنی زیادہ عبادت سے منع کیا اور حکم فرمایا کہ بلا افطار تین دن سے زیادہ روزے نہ رکھا کرو اور پوری رات کے بس تہائی یا چھٹے حصے میں شب بیداری کیا کرو، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے یہ بھی نصیحت کی کہ اپنے بزرگوار باپ کی مرضی ومنشاء کا ہمیشہ لحاظ رکھنا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت ونصیحت کی بنا پر انہوں نے ملت میں تفرقہ وانتشار کے سخت ترین فتنے کے دور میں بھی اپنے والد بزرگوار سے علیحدگی وجدائی اختیار نہیں کی، جو حضرت امیر ومعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشیر اعلیٰ اور وزیر تھے، اور جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو فرمایا تھا، وہ لوگوں کے معاملات وحالات سے بے پرواہ ہو کر اپنی ذات کی اصلاح اور اپنی استقامت کی طرف متوجہ رہتے ، جب ان کے والد حضرت عمرو ان سے کہا کرتے کہ تم ہم میں سے ہونے کے باوجود ہم سے الگ الگ کیوں رہتے ہو، اور ہماری کاروائیوں میں کیوں شریک نہیں ہوتے؟ تو وہ جواب دیتے کہ " آپ لوگوں کے اچھے کاموں میں تو شریک ہوں لیکن ان کاموں میں خود کو شریک نہیں کر سکتا جو میرے نزدیک اللہ اور اس کے رسول کی مرضی ومنشاء کے منافی وملی مفاد کے خلاف ہیں۔ نیز ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بڑے سے بڑے فتنے کے وقت بھی ان کے دل سے اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت واحترام کا جذبہ کسی بھی طرح سے کم ہوا ہو، ان کا باطن ہمیشہ اہل بیت کی محبت وعظمت سے منور رہا ۔