مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کھانوں کے ابواب ۔ حدیث 133

لہسن ، پیاز کھا کر مسجد ومجالس ذکر وغیرہ میں مت جاؤ

راوی:

وعن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " من أكل ثوما أو بصلا فليعتزلنا " أو قال : " فليعتزل مسجدنا أو ليقعد في بيته " . وإن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بقدر فيه خضرات من بقول فوجد لها ريحا فقال : " قربوها " إلى بعض أصحابه وقال : " كل فإني أناجي من لا تناجي "

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" جو شخص لہسن یا (کچی ) پیاز کھائے ہوئے ہو، تو اس کو چاہئے کہ وہ ہم سے الگ رہے یعنی ہماری مجالس میں نہ آئے یا یہ فرمایا کہ تو اس کو چاہئے کہ وہ (کہیں جانے کے بجائے ) اپنے گھر میں بیٹھا رہے ۔" اور (ایک دن کا واقعہ ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ہانڈی لائی گئی جس میں از قسم ترکاری سبزیاں تھیں (یعنی لہسن، پیاز اور گندنا وغیرہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں بو محسوس ہوئی تو اپنے صحابہ میں سے ایک شخص کی طرف اشارہ کر کے (کسی خادم سے) فرمایا کہ اس کو اس (فلاں شخص ) کے پاس لے جاؤ اور پھر ( اس شخص کو ) مخاطب کر کے فرمایا کہ اس کو تم کھاؤ میں نہیں کھاؤں گا کیونکہ میں جس ہستی کے ساتھ سرگوشیاں کرتا ہوں اس کے ساتھ تم سرگوشی نہیں کرتے ۔" (بخاری ومسلم )

تشریح
ہماری مسجد " میں مفرد لفظ یعنی " مسجد " سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم صرف مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے اور صیغہ متکلم میں مع الغیر کا استعمال (یعنی میری مسجد کہنے کے بجائے ہماری مسجد کہنا ) مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و اکرام کے پیش نظر ہے لیکن چونکہ اس حکم کی علت اور اس کا سبب میں تمام ہی مساجد بلکہ مجالس خیر جیسے مجلس ذکر وغیرہ، مجلس درس و تدریس اور اولیاء اللہ و علماء دین کی مجالس بھی شامل ہیں اس لئے جو حکم مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کہ لہسن وغیرہ کھا کر اس میں نہ جایا جائے یہی حکم دیگر مساجد و مجالس خیر کا بھی ہو گا اور اگر اس احتمال کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ اس ارشاد گرامی میں مفرد لفظ مسجد سے مراد جنس ہے ( کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ مسجد بول کر تمام مساجد مراد لی ہیں ) تو پھر اس تاویل کی بھی ضرورت نہیں ہو گی ، علاوہ ازیں بعض روایت میں مساجدنا یعنی ہماری مساجد کا لفظ منقول ہے، اس صورت میں تو تمام مساجد کے لئے یہ حکم بالکل صریح ہو گا ۔
او لیقعد فی بیتہ میں حرف او (یعنی یا ) اگر راوی کے شک کے اظہار کے لئے ہے تو مراد یہ ہو گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو فلیعتزلنا تو اس کو چاہئے کہ وہ ہم سے الگ رہے ) فرمایا تھا یا یہ فرمایا تھا کہ فلیعتزل مسجدنا (تو اس کو چاہئے کہ ہماری مسجد سے دور رہے ) اور یا یہ فرمایا تھا کہ من اکل ثوما او بصلا فلیقعد فی بیتہ یعنی جو شخص لہسن یا پیاز کھائے ہوئے ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے ، کسی دوسرے کے پاس نہ جائے خواہ مسجد میں خواہ مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ ۔ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ او لیقعد فی بیتہ میں حرف اور راوی کے شک کے اظہار کے لئے نہ ہو ، بلکہ تنویع و تقسیم کے لئے ہو اور اس کا تعلق ماقبل کے فقرہ یعنی فلیعتزل مسجدنا سے ہو اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ لہسن پیاز کھا کر مسجد میں آنا مکروہ ہے کہ وہاں ملائکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ موجود رہتے ہیں اور ان چیزوں کو کھا کر عام لوگوں کے ساتھ اختلاط و مجالست مباح ہے اور یا اس سے بھی پرہیز کرنا چاہئے کہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے اور مطلق اختلاط و مجالست سے باز رہے کیونکہ یہ زیادہ بہتر ہے ۔
" اس ہستی " سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام اور ملائکہ ہیں مطلب یہ تھا کہ یہ فرشتے میرے پاس آتے رہتے ہیں اور میں ان سے بات چیت کرتا ہوں جب کہ تمہارے ساتھ یہ چیز نہیں ہے اس لئے جو چیز ( یعنی لہسن پیاز وغیرہ کھانا ) میرے لئے جائز نہیں وہ تمہارے لئے جائز ہے اس ارشاد گرامی میں گویا اس طرف اشارہ ہے کہ ہے کہ انسان کو چاہئے کہ اپنے ہم نشین و مصاحب کی طبیعت و عادات اور اس کے حل کی رعایت ملحوظ رکھے اور اس کی جائز خوشی و مرضی کو پورا کرے ۔

یہ حدیث شیئر کریں