مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 1327

خلافت راشدہ کی مدت کے بارے میں پیش گوئی

راوی:

وعن سفينة قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول الخلافة ثلاثون سنة ثم تكون ملكا . ثم يقول سفينة أمسك خلافة أبي بكر سنتين وخلافة عمر عشرة وعثمان اثنتي عشرة وعلي ستة . رواه أحمد والترمذي وأبو داود .

حضرت سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ خلافت کا زمانہ تیس سال کا ہوگا ۔ اس کے بعد وہ خلافت بادشاہت میں بدل جائے گی حضرت سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد راوی سے یا عام لوگوں کو خطاب کر کے کہا کہ حساب کر کے دیکھو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو تیس سال کی مدت بیان فرمائی ہے وہ اس طرح ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ دو سال۔، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ دس سال، حضرت عثمان کی خلافت کا زمانہ بارہ سال اور حضرت علی کی خلافت کا زمانہ چھ سال (رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ)۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد)

تشریح
" خلافت" سے مراد خلافت حق ہے یا وہ خلافت مراد ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک پسندیدہ اور جس کی بنیاد قرآن وسنت کی ہدایت اور رہنمائی اور دین وشریعت کے آئین حکمرانی کی اتباع پر ہو، چنانہ اس خلافت کا صحیح مصداق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اول کی خلافت ہے جس کو خلافت راشدہ کہا جاتا ہے اور جس کی مدت تیس سال ہوئی ہے۔
حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے اپنی شرح مشکوۃ میں اس روایت کو نقل کرتے ہوئے "ملکا " کے بعد "عضوضا " کا لفظ بھی نقل کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ خلافت کٹ کھنی بادشاہت میں بدل جائے گی، یعنی خلافت کا دور ختم ہو جانے کے بعد بادشاہت کا دور شروع ہو جائے گا اور بادشاہت بھی ایسی کہ لوگ اس کی سختیوں اور ظالمانہ کاروایوں سے امن نہیں پائیں گے اور عدل وانصاف کا نظام اور دین پروری کا ماحول جیسا کہ ہونا چاہئے ، جاری نہیں ہوگا، یہ اور بات ہے کہ اس دور کے حکمران گزرے ہوئے خلفاء کی جانشینی کا دعویٰ رکھنے کی وجہ سے اور مجازا اس بادشاہت پر خلافت ہی کا اطلاق کریں اور اپنے کو خلیفہ کہلائیں اور گو ان کو امیرالمومنین کہنا کوئی خلاف حقیقت بات بھی نہ ہو کیونکہ نظم مملکت اور ظاہری قانون کے مطابق وہ مسلمانوں کے امیر و حاکم بہرحال ہوں گے لیکن حقیقی خلافت کہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بس تیس سال تک رہے گی، چنانہ خلفاء راشدین کہ جن کا دور خلافت حقیقی خلافت کا واقعی مصداق تھا، تیس ہی سال پر مشتمل ہے۔
شرح عقائد میں اس حدیث کے تعلق سے ایک اشکال وارد کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلافت کا دور صرف تیس سال فرمایا ہے جب کہ خلفاء راشدین کے بعد کے زمانے میں خلفاء عباسیہ بلکہ بنو امیہ میں سے بعض خلفاء جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت پر مسلمانوں کے تقریبا تمام ہی علماء اور اہل عمل وعقد کا اتفاق رہا ہے تو کیا ان کے دور خلافت کو خلافت نہیں کہا جا سکتا اس کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس خلافت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ خلافت کاملہ کہ جس میں دین وشریعت اور عدل وانصاف کی ذرا سی بھی آمیزش نہ ہو، تیس سال رہے گی ، اس کے بعد کی خلافت کی شکل وصورت میں تبدیلی آئے گی، ہاں کچھ دور ایسے بھی آئیں گے جس میں اس خلافت کے طرز کو اختیار کیا جائے گا ورنہ عام طور پر جو بھی خلافت قائم ہوگی وہ بس نام ہی کی خلافت ہوگی، اصل کے اعتبار سے بادشاہت ہوگی، واضح رہے کہ خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ کا دور حکمرانی شروع ہوا جس کو انہوں نے اگرچہ خلافت ہی کا نام دیا مگر حقیقت میں وہ بادشاہت تھی، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس دور کے سب سے پہلے حکمران ہیں ان کا دور حکمرانی اگرچہ خلافت راشدہ کی طرح دین وملت کے حق میں حقیقی خلافت کا نمونہ نہیں رہا مگر ان کی خلافت وحکومت میں بادشاہت کی وہ تمام خرابیاں بھی نہیں تھیں جو ان کے جانشینوں کے دور حکومت میں پیدا ہوئی نیز انہوں نے اپنے دور حکمرانی کو کسی نہ کسی حد تک خلافت راشدہ کے نہج پر رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کے بعد بنو امیہ کا اکثر دور حکمرانی مسلمانوں کی باہمی آویزش وخلفشار قتل وغارت گری، دین وشریعت کی صریح خلاف ورزی اور ظلم و ناانصافی کی بہت زیادہ مثالوں سے بھرا ہوا تھا، اس دور کی ابتداء یزید بن معاویہ کے دور سے ہوتی ہے، یزید کے بعد اس کا بیٹا معاویہ بن یزید حکمران ہوا، اس کے بعد ولید بن عبدالملک ، سلیمان بن عبدالملک ، حضرت عمر بن عبدالعزیز ، یزید بن عبدالملک ، ہشام بن عبدالملک ، ولید بن یزید بن عبدالملک ، ابراہیم بن ولید بن عبدالملک ، اور مروان بن محمد بن مروان بالترتیب یکے بعد دیگرے خلیفہ وحکمران ہوتے رہے مروان بن محمد بن مروان ، بنو امیہ میں سے آخری حکمران تھا، اس کے بعد خلافت بنو امیہ سے نکل کر بنو عباس میں پہنچ گئی ۔
حدیث کے راوی حضرت سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیس سال کا جو حساب بیان کیا ہے وہ تخمینا ہے اور اس بات پر مبنی ہے کہ انہوں نے کسور کو بیان نہیں کیا، چنانچہ صحیح روایات اور مستند تاریخی کتابوں میں خلافت راشدہ کی تیس سالہ مدت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ دو سال چار ماہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ دس سال چھ ماہ، حضرت عثمان غنی کی خلافت کا زمانہ چند روز کم بارہ سال اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ چار سال نو ماہ رہا ہے۔ اس طرح چاروں خلفاء کی مجموع مدت خلافت انتیس سال سات ماہ ہوتی ہے اور پانچ مہینے جو باقی رہے وہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ ہے، پس حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خلفاء راشدین میں سے ہوئے (رضی اللہ عنہم)

یہ حدیث شیئر کریں