مظالم پر صبر کرو اور یہ جانو کہ آنے والا زمانہ موجودہ دور سے بھی بدتر ہوگا
راوی:
وعن الزبير بن عدي قال أتينا أنس بن مالك فشكونا إليه ما نلقى من الحجاج . فقال اصبروا فإنه لا يأتي عليكم زمان إلا الذي بعده أشرمنه حتى تلقوا ربكم . سمعته من نبيكم صلى الله عليه وسلم . رواه البخاري .
حضرت زبیر بن عدی تابعی کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حجاج بن یوسف کے مظالم اور ایذاء رسانیوں کی شکایت کی انہوں نے فرمایا کہ صبر کرو اور ضبط وتحمل سے کام لو، کیوکہ آئندہ جو بھی زمانہ آئے گا وہ گزشتہ زمانے سے بدتر ہوگا پس تمہیں کیا معلوم کہ آنے والے زمانے میں کیسے کیسے حکمران و اعمال ہوں گے جو شاید حجاج سے بھی زیادہ ظالم و جابر ثابت ہوں۔ اس لئے تم حجاج کے مظالم اور ایذاء رسانیوں پر صبر کرو، یہاں تک تم روز آخرت اپنے پروردگار سے ملاقات کرو اور پھر تم دیکھنا کہ تمہارا پروردگار تمہارے ظالموں کو کس طرح عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ بات میں نے تمہارے پیغمبر سے سنی ہے۔ (بخاری)
تشریح
اس حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ہر آنے والا زمانہ گزشتہ زمانہ سے بدتر ہوگا، تو اس پر اس صورت میں اشکال واقع ہوگا جب کہ آنے والا زمانہ سے مراد بلا استثناء ہر آنے والا زمانہ ہو، اور اشکال یہ واقع ہوگا کہ حجاج بن یوسف کے زمانہ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ آیا، یا بعد میں حضرت عیسی اور حضرت مہدی علیہما السلام کا زمانہ آئے گا تو کیا ان زمانوں پر بھی مذکورہ بات کا اطلاق ہوگا اور بلا استثناء یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ہر آنے والا زمانہ حجاج کے زمانہ سے بھی بدتر ہوگا، ہاں اگر یہ بات استثناء کے ساتھ فرمائی گئی ہے تو پھر اشکال پیدا ہوگا، چنانچہ شارحین حدیث نے وضاحت کی ہے کہ آنے والے زمانوں کے بدتر ہونے کی خبر دینا اکثر و اغلب کے اعتبار سے ہے یعنی آنے والے زمانوں میں اکثر و غالب زمانے ایسے ہی ہوں گے جو پچھلے زمانہ سے بدتر ماحول سے بھرے ہوئے ہوں گے، نیز آنے والے زمانہ سے مراد حجاج کے زمانہ سے زمانہ دجال تک کے زمانے ہیں، جن میں سے حضرت عیسی اور حضرت مہدی کے زمانے مستثنی ہیں ، علاوہ ازیں اس حدیث کا اصل مقصود امت کے لوگوں کو تسلی دینا ، ظلم و جور پر صبر کرنے کی تلقین کرنا، آنے والے زمانوں کے بارے میں باخبر کرنا، اور اس بات کی طرف راغب کرنا ہے کہ اپنے زمانہ کو غنیمت جان کر زیادہ سے زیاہ اخروی فائدے حاصل کرنے میں مشغول رہو، کیا خبر کہ آنے والے زمانوں میں کسی کو اتنا بھی موقع مل سکے یا نہیں۔
بعض حضرات نے اس وضاحت کو زیادہ مناسب کہا ہے کہ آنے والے زمانوں کے بارے میں جہاں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس سے حضرت عیسی علیہ السلام کا زمانہ تو مستثنی ہے باقی تمام زمانے ، کسی نہ کسی اعتبار سے، کسی نہ کسی جگہ کے حالات کے مطابق اور کسی نہ کسی معاملہ میں از روئے علم وعمل اور استقامت واخلاص دین پہلے زمانے سے بتر ہی حالت کے حامل رہے ہیں یا حامل رہیں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک سے بعد و دوری کا تقاضا بھی ہے کہ زمانہ جوں جوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک سے دور ہوتا جاتا ہے اسی اعتبار سے بدی اور خرابی بڑھتی جاتی ہے ، اور اس کا سلسلہ ذات رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے فورا بعد شروع ہو گیا تھا چنانچہ صحابہ تک نے اپنی صفائی باطن اور پاکیزگی نفس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے بعد اپنے قلوب کی حالت وکیفیت میں تبدیلی محسوس کی تھی، پہلے کے بعض بزرگوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ پہلے کسی وقت دل میں گناہ کا خیال پیدا ہو گیا اور پھر وہ خیال جاتا رہا تو کہیں کافی مدت کے بعد جب وہی خیال پھر دوبارہ آیا تو اب آسانی کے ساتھ دفعہ ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ بہت غور کرنے بعد اس فرق کی وجہ اس کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ ظلمت ، زمانہ نبوت کے نور سے اور زیادہ بعد زمانہ ہو جانے کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے کیونکہ زمانہ نبوت کو گزرے جتنا زیادہ عرصہ ہوتا جاتا ہے برائی کی ظلمت اسی اعتبار سے زیادہ ہوتی جاتی ہے۔