ایک خاص پیش گوئی
راوی:
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم هلكة أمتي على يدي غلمة من قريش . رواه البخاري . ( متفق عليه )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت کی ہلاکت قریش کے چند نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ (بخاری)
تشریح
اس حدیث میں امت سے مراد صحابہ کرام اور اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو امت کے سب سے بہتر وافضل افراد تھے۔ اور لفظ غلمۃ غلام کی جمع ہیں جس کے معنی نوجوان کے ہیں اور صراح میں لکھا ہے کہ غلام کے معنی لڑکے کے ہیں نیز واضح رہے کہ غلام کا لفظ اصل میں غلم اور اغتلام سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں شہوت کا جوش وغلبہ بہرحال یہاں غلمۃ (نوجوانوں ) سے مراد وہ چھوٹی عمر کے نوجوان ہیں جو غیر سنجدیدہ اور بیباک ہوتے ہیں بڑوں، بزرگوں کا ادب واحترام نہیں کرے اور ہل علم ودانش اور باوقار لوگوں کی عظمت کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ارشاد گرامی میں قریش کے جن نوجوانوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے ان سے قریش سے نسلی تعلق رکھنے والے دین وملت کے وہ بدخواہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے جاہ وسلطنت اور ذاتی اغراض حاصل کرنے کے لئے حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو شہید کیا اور ان کی ہلاکت کا باعث بنے یا جنہوں نے اس وقت ملت میں افتراق وانتشار اور ظلم وبغاوت کا فتنہ پیدا کیا نیز مجمع البحار میں لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں لوگوں کو تعین وتشخص کے ساتھ جانتے تھے لیکن اس حدیث کو بیان کرتے وقت ، فتنہ وشرانگیز کے خوف سے ان لوگوں کے نام ظاہر نہیں فرماتے تھے اور وہ لوگ بنو امیہ کے عبداللہ بن زیاد اور ان جیسے دوسرے نوجوان، حجاج بن یوسف جو عبدالملک بن مراوان کا میرالامراء بنا سلیمان بن عبدالملک جیسے نوخیز اور ان کی اولاد میں سے دوسرے افراد تھے جنہوں نے اس حد تک فتنہ وفساد کا بازار گرم کیا کہ اہل بیت نبوی کو بے پناہ مظالم کا شکار بننا اور جام شہادت نوش کرنا پڑا بڑے اونچے درجہ کے مہاجر اور انصار صحابہ کرام کو بڑی مظلومیت کے ساتھ اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایسی ایسی خونریزیاں ہوئیں اور جان ومال کا اس قدر نقصان ہوا کہ زمین وآسمان کانپ گئے چنانچہ ان لوگوں کے وہ سیاہ کارنامے تاریخ میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔