مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 1315

اس سے قبل کہ فتنوں کا ظہور ہو ، اعمال صالحہ کے ذریعہ اپنی زندگی مستحکم کر لو

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بادروا بالأعمال فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل مؤمنا ويمسي كافرا ويمسي مؤمنا ويصبح كافرا يبيع دينه بعرض من الدنيا . رواه مسلم . ( متفق عليه )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اعمال صالحہ میں جلدی کرو قبل اس کے کہ وہ فتنے ظاہر ہو جائیں جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے اور ان فتنوں کا اثر ہوگا کہ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا، نیز اپنے دین ومذہب کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کے عوض بیچ ڈالے گا۔ (مسلم)

تشریح
" اعمال صالحہ میں جلدی کرو" کی ہدایت کا حاصل یہ ہے کہ اس تغیر پذیر دنیا کو کسی ایک رخ پر قرار نہیں اور وقت حالت کا بہاؤ ایک ہی سمت نہیں رہتا، اگر اب ایسے حالات ہیں جو عقیدہ و عمل کا رخ صحیح سمت رکھنے میں معاون بنتے ہیں تو بعد میں ایسے حالات بھی پیدا ہو سکتے ہیں جو فکر ونظریات اور عقیدہ وعمل کا سفر ٹھیک رخ پر جاری رکھنے میں زبر دست رکاوٹ پیدا کر دیں، اور ایسے میں کم ہی انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے ذہن وفکر اور دل و دماغ ان حالات کی تاثیر سے محفوظ رہ پائیں اور جن کے اعمال صالحہ میں رکاوٹ نہ پیدا ہوتی ہو، پس جس شخص کو جو بھی موقع ملے اس میں اچھے کام اور نیک عمل کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور جس قدر بھی اعمال کئے جا سکتے ہوں کر لئے جائیں کیونکہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا وقت کیا فتنے لے کر آئے اور پھر اعمال صالحہ اختیار کرنے کا موقع بھی مل سکے یا نہیں۔
" فتنوں" کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے فتنوں کے بارے میں کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکے گا کہ وہ کب اور کیوں نمودار ہوں گے اور ان سے چھٹکارے کی راہ کیا ہوگی، لہٰذا ان آنے والے فتنوں سے پہلے ہی اعمال صالحہ کے ذریعے اپنی دینی زندگی کو مضبوط ومستحکم بنا لو، آنے والے وقت کا انتظار نہ کرو کیونکہ اس وقت دین وشریعت کے تعلق سے سخت ترین آفات ومصائب میں اس طرح گم ہو کر رہ جاؤ گے کہ نیک کام کرنے کا موقع ہی نہ پا سکو گے۔ وہ وقت لوگوں کے ذہن وفکر اور اعمال وکردار پر کتنا برا اثر ڈالے گا اور وہ فتنے کس قدر سریع الاثر ہوں گے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ مثلا آدمی جب صبح کو اٹھے گا تو ایمان یعنی اصل ایمان یا کمال ایمان کے ساتھ متصف ہوگا لیکن شام ہوتے ہوتے کفر کے اندھیروں میں پہنچ جائے گا۔ رہی یہ بات کہ کفر سے کیا مراد ہے ؟ تو ہو سکتا ہے کہ اصل کفر مراد ہو، یعنی وہ شخص واقعۃ کفر کے دائرہ میں داخل ہو جائے گا یا یہ مراد ہے کہ وہ کفران نعمت کرنے والا ہو جائے گا، یا وہ کافروں کی مشابہت اختیار کر لے گا اور یا یہ کہ وہ ایسے کام کرنے لگے گا جو صرف کافر ہی کرتے ہیں۔
اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ جملہ کے معنی یہ ہیں کہ مثلا ایک شخص جب صبح کو اٹھے گا تو اس چیز کو حلال جانتا ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور اس چیز کو حرام جانتا ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ، لیکن شام ہوتے ہوتے اس کے ذہن وفکر اور اس کے عقیدے میں اس طرح انقلاب آ جائے گا کہ وہ اس چیز کو حرام سمجھنے لگے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور اس چیز کو حلال سمجھنے لگے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ اس پر جملہ کے دوسرے جزء یعنی شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کفر کی حالت میں اتھے گا۔ کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اور حاصل یہ ہے کہ عام لوگ ان فتنوں کی وجہ سے دین وشریعت کے معاملات میں تذبذب وتردد کا شکار ہو جائیں اور نام نہاد دانشور و عالم اور دنیادار مقتداؤں کے پیچھے چلنے لگیں گے۔ مظہر نے کہا ہے کہ مذکورہ صورت حال کے کئی وجوہ واسباب اور مختلف مظاہر ہوں گے ایک تو یہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑ جائے گا اور وہ مخالف گروہوں میں بٹ جائیں گے ۔ پس ان کے درمیان محض عصبیت اور بغض وعناد کی وجہ سے خونریزی ہوگی اور دونوں گروہوں کے لوگ اپنے مخالفین کے جان و مال کو نقصان پہنچانے اور ایک دوسرے کی آبرو ریزی کرنے کو حلال وجائز جانیں گے ، دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے حاکم و امراء ظلم وجور کا شیوہ اپنا لیں گے۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کا ناحق خون بہائیں گے، زور زبردستی ان کا مال لیں گے زنا کاری کریں گے ، شراب پئیں گے اور دوسرے حرام امور کا ارتکاب کریں گے ، لیکن ان کی صریح زیادتیوں اور بدکاریوں کے باوجود بعض لوگ یہ عقیدہ رکھیں گے اور دوسرے حرام امور کا ارتکاب کریں گے، لیکن ان کی بدعقیدگی کے اس فتنہ میں مبتلا کرنے والے وہ نام نہاد علماء ہوں گے جن کو علماء سو کہا جاتا ہے ۔ ان کی طرف سے بے محابا ان امراء وحکام کے ان کاموں کے جواز کا فتوی دیا جائے گا جو وہ مسلمانوں کی خونریزی اور حرام امور کے ارتکاب کی صورت میں کریں گے، اور تیسرے یہ کہ عام مسلمانوں میں جہالت اور دین کی ناواقفیت کی وجہ سے جو برائیاں پھیل جائیں گی اور ان سے جن غیر شرعی امور کا صدور ہو گا جیسے خرید وفروخت کے معاملات اور دوسرے سماجی امور وتعلقات میں دین وشریعت کے احکام کی خلاف ورزی ، ان کو حلال وجائز مانیں گے۔ اور حضرت شیخ عبدالحق نے یہ لکھا ہے کہ مذکورہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوگی کہ لوگ اپنے اغراض ومنافع کی خاطر، دنیادار امراء وحکام اور اہل دولت و ثروت سے میل جول رکھیں گے ان سے حاجت روائی کی امید میں ان کے ہاں گھستے پھریں گے ان کی حاشیہ نشینی اور مصاحبت کو بڑا اعزاز سمجھیں گے، پس اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ان کے تابع محض اور جی حضوری بن جائیں گے اور ان کے خلاف شریعت امور ومعاملات میں ان کی موافقت تائید کرنے پر مجبور ہوں گے۔
" آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا الخ" کے ایک معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ آدمی صبح کو اٹھے گا تو اپنے مسلمان بھائی کے خون اور مال وعزت کے حرام ہونے کا عقیدہ رکھنے کے سبب ایمان کی حالت میں ہوگا مگر شام ہوتے ہوئے اس کے عقیدے میں تبدیلی آ جائے گی اور وہ اپنے مسلمان بھائی کے خون اور مال کو حلال سمجھنے لگے گا اور اس کے سبب وہ کافر قرار دیا جائے گا یہ معنی اختیار کرنے کی صورت میں فتنوں سے مراد جنگ وقتال ہوگا۔ لیکن اس جملہ کے جو معنی پہلے بیان کئے گئے ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی کے زیادہ مناسب ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں