مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان ۔ حدیث 1309

مسلمانوں کے مختلف زمانوں کے بارے میں ایک پیش گوئی

راوی:

عن النعمان بن بشير عن حذيفة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا عاضا فتكون ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا جبرية فيكون ما شاء الله أن يكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج نبوة ثم سكت قال حبيب فلما قام عمر بن عبد العزيز كتبت إليه بهذا الحديث أذكره إياه وقلت أرجو أن تكون أمير المؤمنين بعد الملك العاض والجبرية فسر به وأعجبه يعني عمر بن عبد العزيز . رواه أحمد والبيهقي في دلائل النبوة .

حضرت نعمان بن بشیر حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے درمیان، نبوت کا وجود اور اس کا نور اس وقت تک باقی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ نبی کو اپنے پاس بلا لینے کے ذریعہ نبوت کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ (یعنی تیس سال تک) پھر اللہ تعالیٰ خلافت کو بھی اٹھا لے گا اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی (یعنی ایسے لوگوں کی بادشاہت کا زمانہ آئے جو آپس میں ایک دوسرے کو اس طرح کاٹیں گے جس طرح کتے کاٹتے ہیں اور وہ بادشاہت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اس دنیا سے اٹھا لے گا اس کے بعد قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طریقہ پر یعنی عدل وانصاف کو پورے طور پر جاری کرنے والی خلافت قائم ہوگی (اور اس خلافت سے مراد حضرت عیسی اور حضرت مہدی علیہما السلام کا زمانہ ہے) ات نافرما کر آپ خاموش ہو گئے۔
حضرت حبیب بن سالم نے جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں اور حضرت نعمان بن بشیر کے آزاد کردہ غلام اور ان کے کاتب تھے، نیز ان سے حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ روایتیں نقل کرتے ہیں بیان کیا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مقرر ہوئے اور انہوں نے نبوت کے طریقہ پر حکومت قائم کی تو میں نے اس حدیث کی طرف ان کی توجہ مبذول کرنے کے لئے یہ حدیث لکھ کر ان کے پاس بھیجی اور اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ مجھ کو امید ہے کہ آپ وہی امیرالمومنین یعنی خلیفہ ہیں جس کا ذکر اس حدیث میں کاٹ کھانے والی بادشاہت اور قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کے بعد آیا ہے۔
وہ یعنی عمر بن عبدالعزیز اس بات سے بہت خوش ہوئے اور اس تشریح نے ان کو بہت مسرور کیا (یعنی اس بات کی امید و آرزو نے ان کو بھی بہت خوش کیا کہ حدیث میں جس آخری خلافت کا ذکر کیا گیا ہے شاید اس کا اطلاق میرے زمانہ خلافت ہی پر ہو) اس روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں