شراب کے بارے میں ایک پیشگوئی
راوی:
وعن عائشة قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن أول ما يكفأ قال زيد بن يحيى الراوي يعني الإسلام كما يكفأ الإناء يعني الخمر . قيل فكيف يا رسول الله وقد بين الله فيها مابين ؟ قال يسمونها بغير اسمها فيستحلونها . رواه الدارمي .
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے جس کام کو اوندھا کر دیا جائے گا حدیث کے راوی حضرت زید بن یحییٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضاحت کی کہ یعنی اسلام میں سب سے پہلے جس کام کو اوندھا کر دیا جائے گا جیسے برتن اوندھا کر دیا جاتا ہے وہ شراب ہوگی۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ! یہ کیونکر ہوگا جب شراب کے متعلق اللہ کے وہ احکام بیان ہو چکے ہیں جو سب پر ظاہر بھی ہو گئے ہیں؟ یعنی جب شراب کی حرمت نازل ہو چکی ہے اور نہایت سختی کے ساتھ مسلمانوں کو اس چیز سے اجتناب کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس حرمت اجتناب کا یہ حکم اتنا واضح ، اتنا عام اور اس قدر تاکید کے ساتھ ہے کہ سب مسلمان اس سے واقف وآگاہ ہو گئے ہیں تو پھر ایسا کس طرح ہوگا کہ اس کا حکم بدل دیا جائے گا اور وہ مسلمانوں کو اسلام کی مخالفت کی راہ پر لے جائے گی؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ لوگ حیلوں اور بہانوں کے ذریعہ اس کو پینا شروع کر دیں گے اور طریقہ یہ اختیار کریں گے کہ اس کا نام بدل دیں گے اور اس کو حلال قرار دے لیں گے۔ (دارمی)
تشریح
" مایکفأ" اصل میں لفظ کفاء کا صیغہ مجہول ہے، جس کے معنی ہیں برتن وغیرہ کو اوندھا دینا الٹ دینا تاکہ اس میں پانی وغیرہ جو بھی چیز ہو وہ گر جائے۔
" یعنی الاسلام" کے الفاظ حدیث کے ایک راوی زید نے بیان کئے ہیں اور ان میں بھی الاسلام سے پہلے فی کا لفظ تھا جو راوی سے ساقط ہو گیا ہے ۔ کسی مجلس یا خطبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شراب کا ذکر اور اس کا حکم بیان فرما رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اثنا میں اول مایکفاء ارشاد فرمایا چنانچہ راوی نے اس ارشاد کو واضح کرنے کے لئے اس جملہ کی خبر، جو محذوف تھی اپنے الفاظ الخمر کے ذریعہ بیان کی پس یعنی الخمر کا لفظ بھی راوی کا ہے جو یہ مراد بیان کرتا ہے کہ اسلام میں جس چیز کو سب سے پہلے الٹ دیا جائے گا وہ شراب ہے۔ بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جب آخر زمانہ میں مسلمانوں کی دینی زندگی میں بہت الٹ پھیر ہو جائے گا اور مذہب کے ساتھ ان کا تعلق کمزور ہو جائے گا تو اس وقت حرام وناجائز چیزوں میں سے سب سے پہلے جس چیز کا کھلم کھلا ارتکاب ہوگا اور اسلام کے احکام میں سے سب سے پہلے جس حکم کو ساقط کر دیا جائے گا وہ شراب اور اس کا حکم ہے کہ لوگ نہ صرف شراب نوشی اختیار کریں گے بلکہ مختلف حیلوں بہانوں اور تاویلوں کے ذریعہ اس کو حلال وجائز قرار دینے کی سعی بھی کریں گے، مثلا اس کا نام بدل کر کسی ایسے مشروب کے نام پر رکھ دیں گے جس کا پینا جائز ہے جب کہ حقیقت میں وہ شراب ہوگی، یا اس کو کسی دوسرے اجزاء جیسے شہد اور چاول وغیرہ کے ساتھ بنائیں گے اور کہیں گے کہ اسلام میں جس چیز کو خمر یعنی شراب کہا گیا ہے اور جس کا پینا حرام ہے وہ انگور کا پانی ہے کہ اس سے نشہ پیدا ہوتا ہے اور یہ مشروب چونکہ انگور سے نہیں بنایا گیا ہے اس لئے اس کو پینا حرام نہیں ہے، حالانکہ وہ نہیں جانیں گے کہ جو بھی چیز نشہ پیدا کرنے والی ہے وہ حرام ہے اور خمر کے حکم میں ہے۔
" اور اس کو حلال قرار دے لیں گے" کی دو صورتیں ہوں گی، ایک تو یہ کہ وہ لوگ واقعتا اس کو حلال جانیں گے ۔ اس صورت میں وہ کافر ہو جائیں گے کیونکہ شریعت نے جس چیز کو وضاحت کے ساتھ حرام قرار دیا ہے اس کو حلال جاننا کفر ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اس کو واقعتا حلال قرار نہیں دیں گے بلکہ اس کو اسی طرح کھلم کھلا پئیں گے اور یہ ظاہر کریں گے کہ گویا ہم حلال چیز پیتے ہیں۔ اس صورت میں ان پر کفر کا نہیں بلکہ فسق کا حکم لگے گا۔