مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان ۔ حدیث 1290

لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان

راوی:

تغیر کا معنی ہیں بدل جانا ۔ یعنی ایک حالت کو چھوڑ کر دوسری حالت اختیار کر لینا۔ یہاں " لوگوں میں تغیر وتبدل ہو جانے " سے مراد مسلمانوں کی اس حالت کا بدل جانا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں تھی، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اہل ایمان کی حالت یہ تھی کہ وہ دین کے راستہ پر سختی سے قائم تھے، احکام سنت کا احترام تھا حق کے پیرو تھے دنیا سے بے رغبت تھے، دنیا کی چمک دمک یعنی مال و دولت ، حشم وخدم اور جاہ ومنصب نے ان کے اندر حرص ولالچ ، اور غرور وتکبر کے جراثیم پیدا نہیں کئے تھے شریعت کے پسندیدہ اعمال ، اچھے خصائل واطوار، بلند کرداری اور حسن اخلاق ان کی عادت ثانیہ تھی حق کی راہ میں سینہ سپر رہتے تھے، دل کی نورانیت اور باطن کی صفائی وپاکیزگی کے جوہر سے متصف تھے۔
لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا لوگوں کے ان حالات میں تبدیلی آتی گئی یہاں تک کہ آخر زمانے میں ان کے حالات، معاملات بالکل برعکس ہو جائیں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں