نو باتوں کا حکم
راوی:
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرني ربي بتسع خشية الله في السر والعلانية وكلمة العدل في الغضب والرضى والقصد في الفقر والغنى وأن أصل من قطعني وأعطي من حرمني وأعفو عمن ظلمني وأن يكون صمتي فكرا ونطقي ذكرا ونظري عبرة وآمر بالعرف وقيل بالمعروف رواه رزين .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے رب نے مجھ کو نو باتوں کا حکم دیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ ظاہر و پوشیدہ ہر حالت میں اللہ سے ڈرا جائے (یعنی دل میں بھی اللہ کا خوف سمایا ہوا ہو، اور ارتکاب معصیت سے اجتناب کی صورت میں اعضاء جسم پر بھی خوف الٰہی کا اثر ظاہر ہو، یا یہ کہ خواہ تنہائی ہو یا لوگوں کی موجودگی ، ہر حالت میں وہی کام کرنا چاہئے جو خوف الٰہی کا مظہر ہو) دوسری بات یہ کہ سچ بولا جائے خواہ غصہ کی حالت ہو یا رضامندگی کی (یعنی بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جب کسی سے راضی وخوش ہوتے ہیں تو اس کی تعریف کرتے ہیں اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور اس کے عیوب کو چھپاتے ہیں اور جب کسی سے غصے وناراض ہو جاتے ہیں تو اس کی برائی کرتے ہیں اس کی ہر بات کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے عیوب کو اچھالتے ہیں، یہ بات مناسب نہیں ہے بلکہ یہ ہونا چاہئے کہ غصہ اور خوشی دونوں حالت میں اپنی زبان کو حد اعتدال پر رکھا جائے اور وہی بات کہی جائے جو حقیقت کے عین مطابق اور عین سچائی ہو) تیسری بات یہ ہے کہ فقر وغربت ، اور ثروت ومالداری دونوں حالت میں میانہ روی اختیار کی جائے (یعنی خواہ فقر و غربت کی حالت ہو ثروت ومالداری کی، بہر صورت راہ اعتدال پر قائم رہا جائے کہ فقر و غربت کی حالت میں تو غصہ، تلخی اور جزع وفزع اختیار نہ کیا جائے اور ثروت مالداری کی حالت میں تکبر وسرکشی اور اونچا اڑنے سے اجتناب کیا جائے یا یہ معنی ہیں کہ رزق اور ضروریات زندگی کی دوسری چیزیں بس اسی مقدار میں طلب کرے جو اعتدال کی حد تک ہو، نہ تو فقر و افلاس کی حد تک تنگی وسختی برداشت کرے اور نہ عیش وعشرت کی زندگی اختیار کرے ) چوتھی بات یہ کہ میں اس شخص سے قرابت داری کو قائم رکھو جو مجھ سے قطع تعلق کرے (یعنی مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اگر میرا کوئی عزیز و رشتہ دار مجھ سے بدسلوکی کرے اور قرابت داری کا تعلق ختم کرے تو میں اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کروں اور اس کے ساتھ قرابت داری کو قائم رکھنے کی کوشش کروں۔ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصف علم وبردباری اور کمال تواضع ومروت کی آئینہ دار ہے) پانچویں بات یہ کہ میں اس شخص کو (بھی) اپنی عطاء وبخشش اور جود و سخاوت سے نوازوں جو مجھے (اپنے لین دین سے) محروم رکھے، چھٹی بات یہ کہ میں انتقام لینے کی طاقت وقوت رکھنے کے باوجود اس شخص کو معاف کروں جو مجھ پر ظلم و زیادتی کرے ، ساتویں بات یہ کہ میرا چپ رہنا عبادت کا ذریعہ ہو (یعنی جب میں خاموشی کی حالت میں ہوں اور کسی کے ساتھ بات چیت یا زبان کے ذریعے تبلیغ میں مشغول نہ ہوں تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات اس کی قدرت کی کرشمہ سازیوں اور اس کے کلام کے معانی ومطالب میں غور وفکر اور استغراق وانہماک رکھو ، آٹھویں یہ کہ میرا بولنا ذکرا للہ کا مظہر ہو (یعنی جب میری زبان جاری ہو اور میں بولوں تو اللہ کی بات کروں کہ اس کا تعلق خواہ تسبیح وتحمید اور تکبیر وتوحید سے ہو یا تلاوت کلام اللہ اور اس کے بندوں کو تعلیم وتلقین اور تذکیر ونصیحت سے ) اور نویں بات یہ کہ میری نظر عبرت پذیری کے لئے ہو (یعنی جب میں اللہ کی کسی مخلوق کی طرف دیکھوں تو میرا وہ دیکھنا عبرت حاصل کرنے کے لئے اور توجہ وہوشیاری کے ساتھ ہو، نہ کہ نادانی وغفلت کے ساتھ، نیز میرے پروردگار نے مجھے یہ بھی حکم دیا ہے کہ میں بندگان اللہ کو نیکی کی تلقین وتبلیغ کروں اور ایک روایت میں " بالمعروف" کا لفظ ہے۔ (رزین)
تشریح
آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ایک روایت میں " بالعرف" کے بجائے " بالمعروف' کا لفظ ہے اور دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی " اچھی بات"
رہی یہ بات کہ جب امر بالمعروف کا ذکر کیا گیا ہے تو نہی عن المنکر کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امر بالمعروف کا لفظ عام ہے جس کے دائرہ میں نہی عن المنکر کا مفہوم بھی آ جاتا ہے، چنانچہ جب صرف امر بالمعروف کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد پورا مفہوم ہوتا ہے یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امربالمعروف کے حکم کا جو ذکر فرمایا ہے وہ مذکورہ باتوں کے حکم کے علاوہ ہے اور یہ حکم جامعیت کا حامل ہے کہ اس کے دائرہ مفہوم میں خالق ومخلوق سے متعلق تمام ہی اچھی باتیں اور طاعات آ جاتی ہیں جن کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تفصیل کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد پھر علیحدہ سے بطریق اجمال ذکر فرمایا۔