مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان ۔ حدیث 1286

صحابہ رضی اللہ عنہم کا کمال احتیاط وتقویٰ

راوی:

وعن عائشة
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يا عائشة إياك ومحقرات الذنوب فإن لها من الله طالبا . رواه ابن ماجه والدارمي والبيهقي في شعب الإيمان .

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ عائشہ! تم اپنے آپ کو ان گناہوں سے بھی دور رکھو جن کو بہت معمولی اور حقیر سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان گناہوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مطالبہ کرنے والا بھی ہے۔ (ابن ماجہ ، بیہقی)

تشریح
" مطالبہ کرنے والا بھی ہے" کا مطلب یہ ہے کہ ایسے گناہوں پر ایک طرح کا عذاب مقرر ہے جو ان گناہوں کے مرتکبین کو اپنی گرفت میں لیتا ہے پس گویا خود وہ عذاب اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنے حوالے کئے جانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور اللہ کے مطالبہ کو رد نہیں کرتا۔ اس اعتبار سے لفظ " طالبا " میں تنوین اظہار تعظیم کے لئے ہے اور جملے کے اعتبار سے طالبا عظیما کے مفہوم میں ہے لہٰذا یہ بات کسی کے لئے بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ اس امر سے غافل رہے جیسا کہ اکثر لوگ ایسے ایسے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کو کہ جو صغیرہ گناہ کے حکم میں ہوتے ہیں، بہت سہل جانتے ہیں اور ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ تو توبہ واستغفار کے ذریعے ان گناہوں کا تدارک کرتے ہیں اور نہ ان کی وجہ سے کسی خوف و ڈر میں مبتلا ہوتے ہیں نیز وہ اس بات سے بھی غافل رہتے ہیں کہ کسی چھوٹے چھوٹے سے گناہ پر اصرار (یعنی اس کو باربار کرنا اور اس سے اجتناب نہ کرنا صغیرہ گناہ نہیں رہتا بلکہ گناہ کبیرہ کے حکم میں آ جاتا ہے اور ویسے بھی ہر گناہ صغیرہ اللہ کی عظمت وکبریائی کی نسبت سے کبیرہ ہی ہے جس کا تھوڑا سا حصہ بھی بہت بڑا بن جاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کبھی کبیرہ گناہ کو تو معاف کر دیتا ہے اور صغیرہ گناہ پر عذاب دیتا ہے جیسا کہ اس کے ارشاد آیت (ویغفر مادون ذالک لمن یشاء) سے مفہوم ومستفاد ہوتا ہے ۔ جہاں تک قرآن کی اس آیت کریمہ کا تعلق ہے آیت (اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَا ى ِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ) 4۔ النساء : 31) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے صغیرہ گناہوں کو تمہاری ان عبادتوں کے ذریعے دھو ڈالیں گے جو گناہ کو مٹا دیتی ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ سرے سے گناہ سے اجتناب کرو خواہ وہ صغیرہ ہو یا گناہ کبیرہ ہو ۔ گویا اس آیت میں شرط کا تعلق محض کبیرہ گناہوں سے بچنے سے نہیں ہے جیسا کہ معتزلہ نے گمان کیا ہے بلکہ اس شرط کا تعلق مطلق گناہ سے ہے۔
ایک اور روایت میں کہ جس کو احمد اور طبرانی نے نقل کیا ہے یہ فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے آپ کو چھوٹے گناہوں سے بھی بچاؤ کیونکہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو کسی کھائی میں اترے اور وہاں انہوں نے ایک ایک لکڑی ایندھن جمع کیا اور پھر اپنی روتی پکائی اسی طرح صغیرہ گناہوں کا مرتکب چھوٹے چھوٹے گناہ کر کے اتنے وبال جمع کر لیتا ہے کہ آخر اس کے پاپ کی ناؤ بھر جاتی ہے اور وہ غرق ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ صغیرہ گناہ کرنے والے کو پکڑ لیتا ہے تو پھر اس کو ہلاک کر ڈالتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں