ایک آیت کا مطلب
راوی:
وعن عائشة
قالت سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن هذه الآية ( والذين يؤتون ما أتوا وقلوبهم وجلة )
أهم الذين يشربون الخمر ويسرقون ؟ قال لا يا بنت الصديق ولكنهم الذين يصومون ويصلون ويتصدقون وهم يخافون أن لا يقبل منهم أولئك الذين يسارعون في الخيرات . رواه الترمذي وابن ماجه .
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا۔ (وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ) 23۔ المؤمنون : 60)۔ وہ لوگ کہ جو دیتے ہیں اور جو کچھ کر دیتے ہیں یعنی از قسم زکوۃ وصدقات ، ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے دل لرزاں وترساں ہیں یعنی ان پر یہ خوف طاری رہتا ہے کہ انہوں نے اللہ کی راہ میں اور اس کے حکم کی اتباع میں جو کچھ خرچ کیا ہے وہ قبول بھی ہوگا یا نہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا یہ انفاق وایثار شرائط وآداب کے مطابق واقع نہ ہو اور ہم الٹے وبال میں پڑ جائیں ۔ اسی آیت کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سوال یہ تھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا گنہگاروں ہی کا کام ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ صدیق کی بیٹی نہیں یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور اس کے باوجود وہ ڈرتے ہیں کہ ان کے اعمال کو شائد قبول نہ کیا جائے (اس کی دلیل آیت کے آخری الفاظ ہیں) آیت (اُولٰ ى ِكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَ يْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ) 23۔ المؤمنون : 61)۔ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں بایں طور کہ طاعات وعبادات کی طرف ان کی رغبت بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ سبقت کر کے ان چیزوں کو حاصل کرتے ہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
تشریح
حدیث میں جو آیت ذکر کی گئی ہے وہ آخر تک اس طرح ہے۔ آیت (وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ 60 اُولٰ ى ِكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَ يْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ 61 )
23۔ المؤمنون : 61-60) اس آیت کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا خیال یہ تھا کہ اس میں جن لوگوں کے ڈرنے کا ذکر کیا گیا ہے ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو شراب پیتے ہیں، چوری کرتے ہیں اور دوسری برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے انہی لوگوں کو ڈرنا چاہئے جو اس کی نافرمانی کرتے ہیں اور برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر واضح فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں ہے بلکہ حقیقت میں یہ آیت ان لوگوں کے متعلق ہے جو طاعات وعبادات کرتے ہیں اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل خود آیت کے آخری الفاظ ہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ بالا آیت میں دو قرائتیں ہیں، مشہور قراءت میں جو کہ قراء سبعہ کی قرأت ہے ، یوتون کا لفظ ہے جو ایتاء کا فعل مضارع ہے اسی طرح لفظ آتو ہمزہ کے مد کے ساتھ ہے جو ایتاء کا فعل ماضی ہے اور اعطاء بمعنی عطاء یعنی دینے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ ترجمے میں یہی معنی بیان کئے گئے ہیں اور دوسری قراءت میں جو کہ شاذہ ہے یہ لفظ یاتون ماا تو ا پڑھا گیا ہے جو ایتان سے مشتق ہے اور جس کے معنی کام کرنے کے ہیں، اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ کہ جو کرتے ہیں اور جو کچھ کہ کرتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے دل لرزاں وترساں ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو سوال کیا وہ اس دوسری قرأت کے زیادہ مناسب ہے، لیکن نہ صرف یہاں مشکوۃ بلکہ اصل کتاب مصابیح میں بھی یہ لفظ پہلی قراءت ہی کے مطابق منقول ہے جب کہ زیادہ صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ دوسری قراءت کے مطابق ہو۔ یہ تو طیبی کے منقولات کا خلاصہ تھا جس کو انہوں نے تفسیر زجاج اور کشاف سے نقل کیا ہے ۔ ملاعلی قاری نے اس سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ اگر اس لفظ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف قرأت شاذہ ہی کے مطابق منسوب کیا جائے تو بھی مراد یہ ہوگی کہ وہ لوگ کہ جو از قسم طاعات وعبادات کوئی عمل کرتے ہیں گویا اس سے وہ مراد نہیں ہوگی جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ سمجھتی تھی کہ وہ لوگ جو از قسم معصیت کوئی عمل کرتے ۔ اسی طرح یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس لفظ سے عام عمل کہ خواہ وہ از قسم طاعت ہو یا از قسم معصیت ، مراد ہے کیونکہ آیت کے آخری الفاظ اولئک یسارعون فی الخیرات اس مراد کی تائید نہیں کرتے۔ حاصل یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد آیت (الذین یصومون) الخ آیت کے الفاظ (والذین یاتون ماا تو ا) کی واضح تفسیر وترجمانی ہے۔ خواہ ان الفاظ کا تعلق دونوں قرائتوں میں سے کسی سے بھی ہو، زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک قرأت کے مطابق الفاظ میں ایک طرح کی تغلیب ہے لہٰذا مشہور قراءت کے تعلق سے یہ آیت جس طرح کے عمل کرنے والوں کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ مالی عبادت ہے جب کہ قراءت شاذہ کے مطابق اس آیت کا تعلق بدنی عبادت سے ظاہر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک قول یہ بھی ہے کہ مشہور قراءت کے مطابق جو الفاظ ہیں ان کی تفسیر میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ کہ جو اپنے نفسوں میں سے وہ چیز دیتے ہیں جو طاعات وعبادات میں سے ہے یعنی محنت ومشقت برداشت کر کے نماز پڑھتے ہیں روزے رکھتے ہیں اور دوسری بدنی عبادتیں کرتے ہیں اور جو اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں نکالتے ہیں ۔ یعنی زکوۃ ادا کرتے ہیں اور صدقہ وخیرات دیتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے دل لرزاں وترساں ہیں۔ اس تفسیر و وضاحت سے دونوں طرح کی عبادتیں اس آیت کے مفہوم میں داخل ہو جائیں گی۔